تحریر :عنایت اللہ کاشف ایڈووکیٹ
تعارف
لیہ کی سیاسی اور سماجی تاریخ میں چند ایسی شخصیات گزری ہیں جن کے کارنامے آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔ سید اختر حسین شاہ ایڈوکیٹ بھی انہیں نابغۂ روزگار ہستیوں میں سے ایک تھے، جنہوں نے نہ صرف سیاست بلکہ سماجی خدمت، فنون لطیفہ اور کھیلوں کے میدان میں بھی اپنا ایک منفرد مقام بنایا۔ آئیے، ان کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو تفصیل سے جانتے ہیں۔
خاندانی اور سیاسی پسِ منظر
سب سے پہلے، ان کے خاندانی اور سیاسی ورثے کو سمجھنا ضروری ہے۔ سید اختر حسین شاہ لیہ کے ایک معروف سیاسی خانوادے سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے والد صدر حسین شاہ نہ صرف ڈسٹرکٹ بار کے ممبر تھے بلکہ لیہ میں بحیثیت ایڈوکیٹ بھی ان کا بہت اثر و رسوخ تھا۔ اس کے علاوہ، وہ سابق ایم ایل اے سید نزرحسین شاہ کے بھتیجے اور داماد بھی تھے، جو ان کے سیاسی رتبے کو مزید مضبوط بناتا تھا۔ یہی نہیں، بلکہ انہوں نے اپنے خاندانی ورثے کو آگے بڑھاتے ہوئے لیہ کی سیاست میں ایک فعال کردار ادا کیا۔
سیاسی کیرئیر اور کارنامے
اگرچہ ان کا تعلق ایک سیاسی گھرانے سے تھا، مگر انہوں نے اپنی محنت اور قابلیت سے اپنی پہچان بنائی۔کئی بار کونسلر منتخب ہوئے چیرمین بلدیہ بھی رہے نڈر اور بیباک قسم کے انسان تھے مثال کے طور پر، جب انہوں نے اپنے مخالف اس وقت کے نہایت طاقتور صاحب اقتدار ملک غلام حیدر تھند کو انکے مظالم کے خلاف کھلے عام چیلنج کیا تو پورا شہر ان کے پیچھے کھڑا ہو گیا۔ نتیجتاً، ان کی عوامی مقبولیت اور سیاسی حکمت عملی نے حریفوں کو ناک کے بل کھڑا کر دیا۔ مزید برآں، وہ سیاسی گفتگو میں بے مثال تھے۔ ان کا تعلق نبھانے کا انداز اتنا شاندار تھا کہ مخالفین بھی ان کی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکتے تھے۔
سماجی اور ثقافتی خدمات سیاست کے ساتھ ساتھ، انہوں نے سماجی خدمات کے میدان میں بھی بھرپور کردار ادا کیا۔ اولاً، انہوں نے مزدور تنظیموں کے حقوق کے لیے آواز بلند کی اور ان کی رہنمائی کی۔ دوسری جانب، وہ صحت اور کھیلوں کے بھی دلدادہ تھے۔ انہوں نے لیہ میں ایک جم (جمنازیم) قائم کیا جہاں عام لوگوں کو مفت میں ورزش کی سہولت دی جاتی تھی۔ اس کے علاوہ ، ان کا بنایا ہوا اکھاڑا بھی مشہور تھا، جہاں وہ خود کئی گھنٹے تک کشتی کی مشقیں کرتے تھے۔
فنون لطیفہ اور ذاتی دلچسپیاں
اگرچہ وہ سیاست اور سماجی خدمات میں مصروف رہتے تھے، مگر فنون لطیفہ سے ان کا گہرا لگاؤ تھا۔ خاص طور پر، کلاسیکی موسیقی اور غزل گائیکی ان کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ یہاں تک کہ وہ خود بھی غزلیں گاتے تھے اور اپنی مہارت سے سامعین کو محظوظ کرتے تھے۔ علاوہ ازیں، وہ کتابوں کے شوقین تھے۔ سیاسی موضوعات پر ان کی گہری نظر تھی، جو ان کی تقریروں میں جھلکتی تھی۔ شخصیت کے نمایاں پہلو
ان کی شخصیت کا سب سے دلکش پہلو ان کی خوش مزاجی اور فطری جاذبیت تھی۔ چاہےکوئی عام آدمی ہو یا ممتاز شخصیت، وہ سب سے یکساں محبت سے پیش آتے تھے۔ مزید یہ کہ، ان میں مشکل سے مشکل بات کو بھی ہنستے کھیلتے حل کرنے کا ہنر تھا۔ حتیٰ کہ مخالفین تک ان کی اس صلاحیت کے قائل تھے۔ خاندانی زندگی اور ورثہ ان کی ذاتی زندگی میں اہم موڑ سیدہ ارشاد بیگم سے شادی تھی، جو سابق ایم ایل اے سید نذر حسین شاہ کی دختر تھیں۔ اس کے بعد، ان کی اولاد نے بھی ان کے ورثے کو سنبھالا۔ خاص طور پر، ان کے بیٹے سید غضنفر عباس (گجو شاہ) نے دو بار ڈسٹرکٹ بار کے صدر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ فی الحال، وہ پنجاب بار کونسل کے الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں، جو سید اختر حسین شاہ کے خوابوں کو پورا کرنے کی جانب ایک اہم قدم ہے۔ اختتام: ایک عہد کا سراآخر میں، یہ کہا جا سکتا ہے کہ سید اختر حسین شاہ ایڈوکیٹ نے اپنی زندگی کے ہر شعبے میں ایک مثالی کردار ادا کیا۔ خواہ وہ سیاست ہو، سماجی خدمت ہو، یا پھر فنون لطیفہ—ہر جگہ ان کی کوششیں قابلِ رشک ہیں۔ اگرچہوہ آج ہمارے درمیان نہیں ہیں، مگر ان کا ورثہ ان کے بیٹے گجو شاہ کی صورت میں زندہ ہے۔ امید ہے کہ نئی نسل ان کے نقشِ قدم پر چل کر لیہ کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالے گی۔