layyah
جمعہ, دسمبر 5, 2025
  • صفحہ اول
  • لیہ
    • ادب
    • ثقافت
    • سیاست
  • پاکستان
  • بین الاقوامی
  • علاقائی خبریں
  • سائنس
  • کاروبار
  • فنون لطیفہ
  • صحت
  • وڈیوز
  • کالم
  • انٹرویو
  • زراعت
  • ستاروں کے احوال
  • شوبز
  • کھیل
  • صفحہ اول
  • لیہ
    • ادب
    • ثقافت
    • سیاست
  • پاکستان
  • بین الاقوامی
  • علاقائی خبریں
  • سائنس
  • کاروبار
  • فنون لطیفہ
  • صحت
  • وڈیوز
  • کالم
  • انٹرویو
  • زراعت
  • ستاروں کے احوال
  • شوبز
  • کھیل
layyah
No Result
View All Result

جنوبی پنجاب میں ایگروفارسٹری کے سماجی معاشی اور موسمی اثرات و اہمیت

عبدالرحمن فریدی by عبدالرحمن فریدی
دسمبر 4, 2025
in زراعت, کالم
0

تحقیق۔ڈاکٹر فرخندہ انجم

نصیراحمد

شعبہ دیہی عمرانیات جامعیہ زرعیہ فیصل أباد

جنوبی پنجاب پاکستان کا وہ خطہ ہے جو اپنی زرخیز زمینوں، محنت کش کسانوں اور متنوع زرعی معیشت کی وجہ سے نمایاں اہمیت رکھتا ہے۔ تاہم یہ خطہ موسمیاتی تبدیلیوں، پانی کی کمی، زمین کی بگڑتی ہوئی زرخیزی اور معاشی عدم استحکام جیسے مسائل سے دوچار ہے۔ ایسے حالات میں زرعی جنگلات، یا ایگروفاریسٹری، ایک ایسا پائیدار اور متوازن نظام پیش کرتے ہیں جو نہ صرف ماحول کی بہتری میں مددگار ثابت ہوتا ہے بلکہ مقامی آبادی کے سماجی و معاشی حالات کو بھی بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ جنوبی پنجاب میں زرعی جنگلات کے نفاذ نے حالیہ برسوں میں کسانوں، محنت کشوں، خواتین اور نوجوانوں کے لیے روزگار، آمدنی اور زندگی کے معیار میں مثبت تبدیلیاں پیدا کی ہیں۔

زرعی جنگلات کا بنیادی تصور یہ ہے کہ زراعت اور درختوں کو ایک مشترکہ زمین پر ساتھ ساتھ اگایا جائے تاکہ دونوں نظام ایک دوسرے کے لیے مفید ثابت ہوں۔ اس طریقے میں زمین کا بہتر استعمال ہوتا ہے، مٹی کے کٹاؤ کو روکا جاتا ہے، حیاتیاتی تنوع بڑھتا ہے اور کسانوں کو فصلوں کے ساتھ ساتھ لکڑی، چارہ، پھل، ایندھن اور دیگر جنگلاتی مصنوعات سے اضافی آمدنی حاصل ہوتی ہے۔ جنوبی پنجاب کے دیہی علاقوں میں جہاں زمین کے چھوٹے ٹکڑے عام ہیں اور کسان کم وسائل کے حامل ہیں، وہاں ایگروفاریسٹری ایک نعمت ثابت ہو رہی ہے کیونکہ اس سے محدود وسائل میں زیادہ فوائد حاصل کیے جا سکتے ہیں۔

موسمیاتی لحاظ سے جنوبی پنجاب شدید درجہ حرارت، کم بارشوں اور طویل خشک سالی کے چیلنجز کا سامنا کر رہا ہے۔ ایگروفاریسٹری کے ذریعے زمین کی نمی برقرار رہتی ہے، درخت سایہ فراہم کرتے ہیں، ہوا کے درجہ حرارت کو متوازن رکھتے ہیں اور کاربن کے جذب میں مدد دیتے ہیں۔ اس طرح یہ نظام مقامی سطح پر ماحولیاتی استحکام پیدا کرتا ہے۔ مختلف تحقیقی مطالعات سے معلوم ہوتا ہے کہ جہاں زرعی جنگلات لگائے گئے ہیں وہاں درجہ حرارت میں معمولی کمی، مٹی کی زرخیزی میں اضافہ اور زیرزمین پانی کے معیار میں بہتری دیکھی گئی ہے۔ درختوں کی جڑیں مٹی کو باندھ کر رکھتی ہیں جس سے کٹاؤ اور سیم و تھور جیسے مسائل میں کمی آتی ہے۔

جنوبی پنجاب کے کسانوں کے لیے یہ نظام محض ماحولیاتی فائدہ نہیں بلکہ معاشی نفع کا ذریعہ بھی ہے۔ روایتی فصلوں کے ساتھ درختوں کی کاشت سے کسانوں کی آمدنی کے ذرائع متنوع ہو جاتے ہیں۔ جہاں ایک طرف گندم، کپاس یا گنا جیسی نقد آور فصلیں اگائی جاتی ہیں، وہیں دوسری طرف شہتوت، شیشم، ککر، ببول اور سفیدہ جیسے درخت لکڑی، چارے اور ایندھن کے طور پر فروخت کیے جاتے ہیں۔ ان مصنوعات سے کسانوں کی سال بھر آمدنی ممکن ہوتی ہے، جو انہیں فصلوں کی موسمی ناکامی یا مارکیٹ کی اتار چڑھاؤ سے تحفظ فراہم کرتی ہے۔ مزید یہ کہ ایگروفاریسٹری سے وابستہ مزدوروں، درختوں کی نرسریوں، لکڑی کی تجارت اور چارہ فروشی کے ذریعے دیہی سطح پر روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوتے ہیں۔

سماجی لحاظ سے یہ نظام کمیونٹی کی ہم آہنگی اور اجتماعی فلاح میں بھی مدد دیتا ہے۔ جنوبی پنجاب کے دیہی معاشرے میں زمین نہ صرف معاشی سرمایہ ہے بلکہ سماجی تعلقات کا مرکز بھی ہے۔ زرعی جنگلات کے پھیلاؤ سے کسانوں کے درمیان تعاون بڑھا ہے۔ وہ مشترکہ طور پر نرسریاں قائم کرتے ہیں، پانی اور وسائل کا بہتر انتظام کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے تجربات سے سیکھتے ہیں۔ خواتین بھی اس عمل میں حصہ لینے لگی ہیں، خاص طور پر درختوں کی دیکھ بھال، پودے لگانے، پھل توڑنے اور چارہ جمع کرنے کے کاموں میں۔ اس طرح خواتین کی گھریلو آمدنی میں اضافہ اور ان کے سماجی مقام میں بہتری آئی ہے۔

زرعی جنگلات کا ایک اور اہم پہلو ماحولیاتی تعلیم اور آگاہی ہے۔ جنوبی پنجاب میں محکمہ جنگلات، لائیوسٹاک، زراعت اور مختلف غیر سرکاری تنظیموں نے مل کر ایسے منصوبے شروع کیے ہیں جن میں کسانوں کو تربیت دی جاتی ہے کہ وہ زمین کے استعمال کو پائیدار انداز میں کیسے بہتر بنا سکتے ہیں۔ ان تربیتی پروگراموں سے نہ صرف عملی مہارتیں بڑھ رہی ہیں بلکہ ماحول کے تحفظ کا شعور بھی اجاگر ہو رہا ہے۔ اس سے دیہاتوں میں نئی سوچ پروان چڑھ رہی ہے جس میں لوگ اپنے اردگرد کے ماحول کو اپنی بقا سے جوڑنے لگے ہیں۔

موسمیاتی تبدیلی کے بڑھتے ہوئے خطرات کے تناظر میں، ایگروفاریسٹری کو ایک مؤثر موافقتی حکمتِ عملی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ درخت کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرکے ماحول میں توازن پیدا کرتے ہیں۔ جنوبی پنجاب میں جہاں جنگلات کی شرح پہلے ہی بہت کم ہے، وہاں زرعی جنگلات درختوں کے کور (tree cover) میں اضافہ کر کے مقامی اور قومی سطح پر ماحولیاتی اہداف کے حصول میں مددگار ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ، درختوں کی موجودگی سے مویشیوں کے لیے بہتر چارہ دستیاب ہوتا ہے، جو لائیوسٹاک سیکٹر کی ترقی میں مدد دیتی ہے۔ چونکہ جنوبی پنجاب میں لائیوسٹاک معیشت کا اہم حصہ ہے، اس لیے ایگروفاریسٹری اس شعبے کی پیداواریت کو بھی بہتر بنا رہی ہے۔

ایگروفاریسٹری کے معاشرتی اثرات میں سب سے اہم پہلو دیہی غربت میں کمی ہے۔ جب کسانوں کو سال بھر متنوع ذرائع سے آمدنی ملتی ہے تو ان کی مالی حالت مستحکم ہوتی ہے۔ وہ اپنے بچوں کی تعلیم، صحت اور رہائش پر بہتر خرچ کر سکتے ہیں۔ اس سے نہ صرف ان کے گھریلو حالات بہتر ہوتے ہیں بلکہ مجموعی طور پر کمیونٹی کے معیارِ زندگی میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ درختوں کی فراہمی سے ایندھن کی قلت کم ہوئی ہے، جس سے خواتین کو جنگلات سے لکڑیاں جمع کرنے کے لیے طویل فاصلے طے نہیں کرنے پڑتے۔ یہ عمل نہ صرف ان کے وقت کی بچت کا باعث بنا بلکہ صحت اور تحفظ کے لحاظ سے بھی مفید ثابت ہوا۔

جنوبی پنجاب میں ایگروفاریسٹری کے پھیلاؤ سے مقامی معیشت میں ایک نیا کاروباری رجحان پیدا ہوا ہے۔ درختوں کی لکڑی سے فرنیچر، دروازے، کھڑکیاں، چارپائیاں، شہتیریں اور دیگر مصنوعات تیار کی جا رہی ہیں، جن سے مقامی دستکاری کے شعبے کو تقویت ملی ہے۔ اس کے علاوہ شہتوت اور دیگر پھل دار درختوں کے ذریعے شہد کی مکھیوں کی افزائش میں اضافہ ہوا ہے، جو ایک نیا ذریعہ آمدن بن چکا ہے۔ یہ سب عوامل مجموعی طور پر دیہی معیشت کو متحرک اور پائیدار بنا رہے ہیں۔

تاہم، اس نظام کے فروغ میں کچھ چیلنجز بھی موجود ہیں۔ کسانوں کی محدود زمین، ابتدائی سرمایہ کی کمی، پانی کی قلت اور تکنیکی آگاہی کا فقدان اس نظام کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت اور متعلقہ ادارے مالیاتی اور تکنیکی مدد فراہم کریں، تاکہ چھوٹے کسان بھی ایگروفاریسٹری کے فوائد سے مستفید ہو سکیں۔ اس کے علاوہ، مقامی سطح پر مارکیٹ کا استحکام، لکڑی اور جنگلاتی مصنوعات کی مناسب قیمتوں کی ضمانت، اور زرعی پالیسیوں میں ایگروفاریسٹری کو ترجیحی حیثیت دینے سے اس شعبے میں مزید ترقی ممکن ہے۔

مستقبل کے تناظر میں اگر جنوبی پنجاب کے کسانوں کو تربیت، سبسڈی اور مارکیٹ تک رسائی کے مواقع فراہم کیے جائیں، تو ایگروفاریسٹری نہ صرف ماحولیاتی تحفظ کی ضمانت دے سکتی ہے بلکہ غربت میں کمی، روزگار میں اضافہ اور غذائی تحفظ کو بھی ممکن بنا سکتی ہے۔ عالمی سطح پر بھی یہ تسلیم کیا جا رہا ہے کہ پائیدار ترقی کے اہداف (SDGs) کے حصول کے لیے ایگروفاریسٹری جیسے ماحولیاتی طور پر ہم آہنگ نظام ناگزیر ہیں۔

بالآخر یہ کہا جا سکتا ہے کہ جنوبی پنجاب میں زرعی جنگلات کا فروغ صرف ایک زرعی تجربہ نہیں بلکہ ایک سماجی و معاشی انقلاب کی صورت اختیار کر رہا ہے۔ یہ نظام کسانوں کی آمدنی میں استحکام، دیہی برادریوں کے معاشی فروغ، خواتین کے بااختیار ہونے، اور ماحول کے تحفظ کا ضامن بن رہا ہے۔ اگر اس سمت میں حکومتی سرپرستی، سائنسی تحقیق اور مقامی شرکت کو مزید تقویت دی جائے تو جنوبی پنجاب نہ صرف زرعی خود کفالت بلکہ ماحولیاتی پائیداری کی بھی ایک مثالی مثال بن سکتا ہے۔

Tags: Agriculture news in pakistan
Previous Post

ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر جنرل شبیر احمد ڈوگر کا صبح سویرے ٹی ایچ کیو ہسپتال چوبارہ کا اچانک دورہ

Next Post

ڈیجیٹل و ٹیکنیکل سکلز پر ایک روزہ ٹریننگ سیشن

Next Post
ڈیجیٹل و ٹیکنیکل سکلز پر ایک روزہ ٹریننگ سیشن

ڈیجیٹل و ٹیکنیکل سکلز پر ایک روزہ ٹریننگ سیشن

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں © 2024

No Result
View All Result
  • صفحہ اول
  • لیہ
    • ادب
    • ثقافت
    • سیاست
  • پاکستان
  • بین الاقوامی
  • علاقائی خبریں
  • سائنس
  • کاروبار
  • فنون لطیفہ
  • صحت
  • وڈیوز
  • کالم
  • انٹرویو
  • زراعت
  • ستاروں کے احوال
  • شوبز
  • کھیل

تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں © 2024