تحریر: آصف رضا
میں اپنے پورے طمطراق، جاہ و جلال اور جوبن کے ساتھ تمہارے آنگن میں سراپاء ناز تھا، تمہارے احاطہء صحن کی رونق تھا، میرے پتوں کی سرسراھٹ روزانہ جب تمہاری سماعتوں سے ٹکراتی، مجھ میں رہائش پذیر پرندے جب صبح صادق چہکتے تو تمہاری آنکھ کھل جاتی تھی۔۔جب اچانک تم نے مجھ پر شب خون مارا اور میرا وجود گھڑی بھر میں پامال کر دیا۔میں نے تمہارا کیا بگاڑا تھا کہ تم نے اپنے چند ہزار کے نفع کی خاطر چشمِ زندن میں میرا قتلِ عام کر کے میرے وجود کی دھجیاں بکھیر دیں۔۔تم نے17 برس قبل اپنے ہاتھوں سے اپنے آنگن میں بصد شوق میرا بیج بویا، اگایا، آبیاری کی، جوان کیا، جب میں نے اپنے آپ کو ایک تناور سانچے میں ڈھال لیا اور تجھے لگا کہ مجھے بیچ کر تجھے مال غنیمت سکہ رائج الوقت کی صورت مل سکتا ہے تو، تو نے بے دردی سے میرا قتل کر دیا۔کیا یہی سلوک تم اپنی اولاد کے ساتھ کر سکو گے؟؟ایک دفعہ تخیل میں سوچ کر دیکھو، صرف سوچ کر ہی رونگٹے کھڑے ہو جائیں گے، چشم آنسوؤں سے تر ہو جائے گی۔۔کیا میرا قصور صرف اتنا ہے کہ میں بے جان ہوں، ساکت ہوں۔۔اپنا دفاع نہیں کر سکتا۔ہاتھ پاؤں نہیں مار سکتا۔تجھ پہ جوابی وار نہیں کر سکتا۔اپنی جگہ بھی نہیں چھوڑ سکتا۔۔دائیں بائیں حرکت نہیں کر سکتامیں بول نہیں سکتا لیکن محسوس ضرور کر سکتا ہوں بس اس کے لیے ایک نرم گوشہ اور ہمدرد دل چاہیے جو یقیناً تمہارے پاس نہیں ہے۔۔اے ناشکرے انسان۔۔میرا وجود 8 ارب لوگوں کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں۔گرمیوں کی چلچلاتی دھوپ میں خود جل کر تجھے سایہ بخشتا ہوں۔۔میرے کئی ہم عصر درخت تم جیسے انسانوں کے لیے مختلف انواع کے لذیذ قسم کے موسمی پھل پیدا کرتے ہیں جنہیں تم بڑی رغبت سے کھاتے ہو، بیوی بچوں کو کھلاتے ہو، مہمانوں کی تواضع کرتے ہو۔۔دانشوروں نے مجھے زمین کا زیور کہا ہے۔۔تمہاری خارج کردہ آلودہ ہوا (کاربن ڈائی آکسائیڈ) کو اپنے اندر جذب کر کے تمہیں تازہ اور زندگی بخش ہوا(آکسیجن) بخشتا ہوں۔۔کبھی اف تک نہیں کی، شکوہ لب نہیں ہوا۔۔بارش، طوفان، آندھی میں تمہاری ڈھال ہوں۔۔تمہاری گاڑی، موٹر سائیکل کو دھوپ میں جلنے سے بچاتا ہوں۔۔ھم درخت ہزاروں لاکھوں برسوں سے تمہیں سایہ، خوراک ،خوشگوار موسم اور دیگر مہربانیوں سے فیض یاب کرتے آئے ہیں۔۔اے انسان۔تمہاری سب سے مقدس کتاب قرآن پاک میں جنت کے اس درخت کا تذکرہ ہے جسے مفسرین لافانیت کا درخت کہتے ہیں اور جس کا پھل کھانے سے اللہ تعالی نے آدم حوا کو منع فرمایا تھا۔ اس کے علاوہ دیگر مذاھب کی مقدس کتابوں میں بھی کثیر جگہوں پر مذکور ہوا ہوں۔۔مجھ جیسا ایک تناور درخت تم جیسے تقریبا 36 لوگوں کو آکسیجن فراہم کرتا ہے، اس نعمت کے بدلے تم نے مجھے آج تک کیا دیا ہے؟؟سوائے قتلِ عام کے۔۔میری قدر و قیمت اس لق و دق صحرا کے باشندوں سے پوچھو جہاں سینکڑوں میلوں بعد، میں ایک جھنڈ کی شکل میں پایا جاتا ہوں اور صحرائی لوگ میرے نیچے ڈھور ڈنگروں سمیت پوری دنیا بساتے ہیں۔ابتدائے آفرینش سے ہم درخت تم انسانوں کی خدمت پر مامور ہیں۔۔کہیں ھم درخت تم انسانوں کو کیکر، سوھانجنا، بیر، پھلاہی، برگد، پیپل، نیم کی شکل میں دل آویز ٹھنڈی چھاؤں بخشتے ہیں تو کہیں سیب، کیلا، جامن، ناریل، خوبانی، آڑو، انناس، آم، شہتوت،سنگترے، کچنار، کھجور، امرود، املوک، ناشپاتی، انار، اخروٹ کی شکل میں لذت اور مٹھاس سے بھرپور پھلوں کا تحفہ دیتے ہیں۔۔ھم درخت کہیں پر الپائن، صنوبر، دیودار، سفیدے کی شکل میں زمین اور پہاڑوں کی گل پاشی کرتے ہیں تو کہیں پر زیتون، لیموں، انگور، انجیر اور پیلو کی صورت میں تم انسانوں کی صحت و تندرستی قائم رکھتے ہیں۔۔خلیل جبران نے کہا تھا۔”درخت وہ نظمیں ہیں جو زمین آسمان پر لکھتی ہے” کسی شاعر نے بجا فرمایا۔۔اس گھنی دھوپ میں یہ سایہ دار پیڑ۔۔میں اپنی زندگی انہیں دے دوں جو بن پڑے۔۔سینکڑوں اقسام کے چرند پرند ہمارے گھنے تنوں، ٹہنیوں میں اپنا مسکن بناتے ہیں۔۔ھم ان کا آشیانہ ہیں۔۔وہ چہکتے ہیں، کلکاریاں مارتے ہیں جنہیں سن کر تم انسان خوشی کے مارے جھوم جھوم جاتے ہو، تمہاری صبحیں ھمارے دم سے با رونق ہیں۔۔جب تم نے مجھ پر شمشیرِ قضا ڈھائی تو ان کا نشیمن بھی اجاڑ دیا، گویا تمہارے دست صیاد سے میرے باسی پرندے بھی محفوظ نہیں رہے۔۔انہیں گھر سے بے گھر کر دیا۔۔عجیب درد کا رشتہ تھا سب کے سب روئے۔۔شجر گرا تو پرندے تمام شب روئے۔۔ہماری صفات اور دنیا الگ الگ سہی لیکن ہماری ماں( زمین ) تو ایک ہی ہے جو تمہیں اور مجھے خوراک دیتی ہے، میرے تنے اور جڑوں کو پانی اور قدرتی کھاد سے سینچتی ہے اور تمہیں سال بھر انواع و اقسام کے اناج گندم، جو، گنا، چنے، آلو، پیاز، باجرہ، مکئی سے نوازتی ہے۔۔جب ہمیں پالنے پوسنے والی مادرانہ صفات کی زمین ماں نے کوئی تفریق نہیں رکھی تو پھر میرے ساتھ یہ ظلم کیوں؟؟یہ نا انصافی کیوں؟؟اے ستم ظریف انسان۔۔میرا کمال ضبط نفس دیکھ کہ تمہارے ہاتھوں انتہائی بے رحمی سے قتل ہونے کے بعد لمحہء موجود میں کسی کباڑیے کی دکان پر نالہء شب گیر ہوں اور تیری ایذا رسانی پر اشک خونین ہوں۔۔میرے تختے بنائے جائیں گے۔مختلف اشکال میں ڈھالا جاؤں گا، چھینی اور ہتھوڑے کے ظالم وار سہوں گا، ترکھان کے ھاتھوں مار کھاؤں گا اور میں مرنے کے بعد بھی الماری، کرسی،ٹی وی ریک، سائیڈ ریک، کمپیوٹر ٹیبل،صوفہ سیٹ، کھڑکی، دروازے، میز، بیڈ، ڈائننگ ٹیبل کی شکل میں تمہاری پھر سے خدمت گزاری کروں گا، میری اعلی ظرفی دیکھ اور اپنی سرد مہری اور سفاکی دیکھ۔۔اندازِ بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے۔۔شاید کے اتر جائے تیرے دل میں میری بات۔۔اے حریص عالی مقام۔۔مجھے کوڑی کے بھاؤ نیلام کر کے کمائی گئی دولت سے تو کتنے دن عیش کر لے گا؟؟دو چار دن، ایک ہفتہ اور بس، پھر بھی تجھے تشفی نصیب نہیں ہو گی، تیرا پیٹ کبھی نہیں بھرنے والا۔۔تیرا ھاتھ پھر سے دست دراز ہو گا۔۔کیونکہ زیادہ سے زیادہ کی لالچ و طمع تیری فطرت کا جزو لاینفک است ہے جس نے تجھے اندھا اور بہرا کر دیا ہے۔۔مادیت پرستی کے جنون نے تجھے پاگل کر دیا ہے۔۔خواھشات نفسانی کی پیروی کرتے کرتے ایک روز تو بھی منوں مٹی تلے جا سوئے گا۔کہتے ہیں کہ معصوم اور بے زبان کی بددعائیں عرشِ معلی تک جاتی ہے۔۔اور بے زبان کو گزند پہنچانا گناہ کبیرہ ہے۔تو اس گناہ کبیرہ کا ارتکاب صدیوں سے کرتا آیا ہے۔تیری بے رحمی کی نشانہ بننے والا میں دنیا کا پہلا شجر نہیں ہوں۔ھر سال دنیا بھر میں مجھ جیسے لگ بھگ 15 ارب درخت تم جیسے سفاک انسانوں کی سفاکیت کا نشانہ بنتے ہیں۔ہے اس دنیا میں کوئی جو ہمارے درد کا درماں کرے۔اے ابنِ آدممیں اپنا معاملہ اللہ کی عدالت میں سونپتا ہوں اور وہ سب سے بہتر انصاف کرنے والا ہے۔۔میری عاجزانہ التجا ہے کہ مجھے گھر کے دیگر افراد کی طرح گھر کا ایک فرد سمجھا جائے۔۔انسیت دی جائے۔۔گلے سے لگایا جائے۔جس طرح یورپ اور امریکہ میں Tree Huggers ھوتے ھیں جو کسی بھی دکھ، مصیبت، پریشانی میں ھم درختوں کو گلے سے لگا کر مراقبہ کرتے ہیں، زہنی سکون پاتے ہیں، ڈپریشن، کولیسٹرول، بلڈ پریشر ، ذھنی دباؤ، سٹریس سے نجات حاصل کرتے ہیں۔۔میرا یہ وعدہ ہے کہ تمہاری دی گئی محبت سود سمیت تمہیں واپس لوٹا دوں گا۔۔تم مجھے ہمیشہ اپنا مخلص دوست پاؤ گے۔میری ٹہنیاں ہمیشہ کی طرح لہلہا لہلہا کر تمہارا استقبال کریں گی۔۔میرے تنے، شاخیں اور پتے ہمیشہ تمہیں ٹھنڈی چھاؤں کا تحفہ دیتے رہیں گے۔۔آخر میں ایک شعر تمہاری سفاک طبیعت کی نذر۔۔بیس برس سے کھڑے تھے جو اس گاتی نہر کے دوار۔۔جھومتے کھیتوں کی سرحد پر بانکے پہرے دار۔۔گھنے، سہانے، چھاؤں چھڑکتے، بور لدے چھتنار۔۔تیس ہزار میں بک گئے سارے ہرے بھرے اشجار۔۔تمہارے ظلم کا شکار ایک لاچار و بے بس شجر۔۔

