*تحریر: عبدالرحمن فریدی*
سردیاں شروع ہوتے ہی ہمارے شہروں کی فضا پر ایک ایسی بھاری چادر تن جاتی ہے جو دھند نہیں بلکہ آلودگی کی لپیٹ میں لی ہوئی زہریلی دھند ہے۔ ہم اسے ’’سموگ‘‘ کہتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ صرف موسم کا مسئلہ نہیں بلکہ ایک اجتماعی کوتاہی کا نتیجہ ہے، ایک ایسی کوتاہی جو ہر سال سینکڑوں زندگیاں متاثر کرتی ہے اور ہمارے بچوں کے مستقبل پر گہرا دھندلا سایہ ڈال دیتی ہے۔
سموگ: قاتل خاموش دشمن
سموگ دراصل ہوا میں پائے جانے والے باریک ذرات، دھوئیں، کیمیکلز اور دھند کا خطرناک ملاپ ہے۔ یہ ذرات اتنے باریک ہوتے ہیں کہ ہم انہیں دیکھ تو نہیں سکتے، مگر یہ ہمارے پھیپھڑوں میں داخل ہو کر جسم کی نازک ترین جھلیوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ صبح کے اوقات میں جب شہری فضا نسبتاً نم ہوتی ہے تو یہ زہریلے ذرات دھند کے ساتھ مل کر موت کا بادل بن جاتے ہیں۔
سموگ کا مسئلہ نیا نہیں، مگر پچھلے چند برسوں سے اس کی شدت میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ صنعتی ترقی، بے قابو ٹریفک، فصلوں کی باقیات کو جلانے کا رواج، اینٹوں کے بھٹوں کا دھواں، سڑکوں پر بڑھتا کچرا اور عوامی سطح پر ماحول سے بے نیازی—یہ سب عوامل مل کر وہ زہریلی فضا بناتے ہیں جو ہر سانس میں بیماری منتقل کرتی ہے۔
سموگ کے طبی اثرات—خاموش مگر خطرناک
ڈاکٹرز کے مطابق سموگ کے اثرات فوری بھی ہوتے ہیں اور دیرپا بھی۔ آنکھوں میں جلن، گلے میں خراش، سانس لینے میں مشکلات، دل کی دھڑکن میں تیزی، دمہ کے دورے، الرجی اور شدید سردرد جیسے مسائل چند گھنٹوں میں سامنے آ جاتے ہیں۔
لیکن زیادہ خطرناک وہ اثرات ہیں جو آہستہ آہستہ جسم کو اپنی گرفت میں لیتے ہیں:
* پھیپھڑوں کی مستقل سوزش
* دل کی بیماریوں میں اضافہ
* بچوں میں پھپھڑوں کی نشوونما رک جانا
* قوتِ مدافعت کا کم ہونا
* قبل از وقت بڑھاپا
* اور بعض صورتوں میں کینسر تک کے مواقع بڑھ جانا
سموگ کے دنوں میں اسپتال مریضوں سے بھر جاتے ہیں، خاص طور پر بچے، بوڑھے، حاملہ خواتین اور وہ لوگ جنہیں پہلے سے سانس یا دل کے مسائل ہوں۔
وجوہات—سب کو معلوم، لیکن کوئی مانتا نہیں
ہم سالوں سے سموگ کی وجوہات پر بحث کر رہے ہیں، مگر عملی قدم اٹھانے میں سب سے پیچھے ہیں۔
چند بڑی وجوہات یہ ہیں:
* زرعی علاقوں میں فصلوں کی باقیات کو آگ لگانا
* پرانے اور دھواں چھوڑنے والے گاڑیاں
* اینٹوں کے بھٹے جن میں پرانے، ماحول دشمن طریقے استعمال ہو رہے ہیں
* فیکٹریوں سے نکلتا ہوا دھواں
* سڑکوں پر جلتا کوڑا کرکٹ
* شہری منصوبہ بندی کا فقدان
* سب سے بڑھ کر ماحول کے لیے ہماری بے حسی
سوال یہ ہے کہ ہم کب تک اپنی غلطیوں کی سزا سانس روک کر بھگتتے رہیں گے؟
عوام کا کردار—سب کا فرض، سب کی ذمہ داری
ہم میں سے ہر شخص یہ سمجھتا ہے کہ ماحول کی بہتری حکومت کی ذمہ داری ہے۔ مگر اگر حکومت کی ذمہ داری ہے تو عوام کی بھی تو کوئی ذمہ داری ہے؟ کیا ہم نے کبھی سوچا کہ ہم خود فضا کے کتنے دشمن ہیں؟
گھر کے باہر کچرا جلانے سے لے کر گاڑی کے دھوئیں تک—ہم روزانہ اپنے شہر کی فضا میں زہر گھولتے ہیں اور پھر انہی سانسوں کے ذریعے وہ زہر اپنے اندر اتارتے ہیں۔
ہمیں یہ ماننا ہوگا کہ سموگ کے خلاف جنگ حکومت اور عوام دونوں کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔
* درخت لگانا کوئی شوق نہیں بلکہ ضرورت ہے
* کچرا جلانا آسان راستہ ہے مگر سانسوں پر قاتل حملہ
* گاڑیوں کی مینٹیننس ضروری
* کھیتوں میں باقیات کو جلانے کے بجائے ماڈرن مشینری استعمال کی جائے
* بی آر ٹی، پبلک ٹرانسپورٹ اور سائیکل کلچر کو فروغ دیا جائے
اگر آج ہم نے یہ چھوٹے چھوٹے قدم نہ اٹھائے تو کل ہماری نسلیں آکسیجن ڈسپنسر خریدتے پھریں گی۔
حکومت کا کردار—صرف نوٹیفکیشن کافی نہیں،حکومت کی ذمہ داریوں میں قانون سازی، نگرانی، بھٹوں کی تبدیلی، فضائی معیار کی مانیٹرنگ اور عوامی آگاہی شامل ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ سموگ کے دنوں میں سخت اقدامات کرے، جس میں شامل ہو:
* دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کے خلاف بلا امتیاز کارروائی
* کچرا جلانے والوں پر جرمانے
* بھٹوں میں جدید ٹیکنالوجی لازمی کرنا
* تعلیمی اداروں میں ماحولیاتی آگاہی پروگرام
* شہری علاقوں میں شجرکاری مہم
لیکن یاد رہے! دنیا میں کہیں بھی مسئلے صرف جرمانوں سے حل نہیں ہوتے۔ عوامی تعاون اور شعور سب سے بڑی طاقت ہے۔سموگ ایک ’’موسمی تکلیف‘‘ نہیں بلکہ ایک ایسا سماجی و صحت عامہ کا بحران ہے جو ہماری روزمرہ زندگی کو شدید متاثر کر رہا ہے۔ یہ مسئلہ دو دن کی مہم سے حل نہیں ہو سکتا۔ ہمیں اپنے رویے بھی بدلنے ہوں گے اور سوچ بھی۔ہمارے بچے صاف ہوا کا حق رکھتے ہیں۔ہماری زمین بہتر ماحول کی حق دار ہے۔اور ہماری آنے والی نسلیں ہم سے سوال کریں گی کہ جب ماحول مر رہا تھا، اُس وقت ہم کیا کر رہے تھے؟آئیے! آج ہی سے اس زہریلی دھند کے خلاف لڑائی کا آغاز کریں۔ یہ جنگ ہماری سانسوں کی جنگ ہے—اور سانس سے بڑھ کر کیا چیز ہماری زندگی میں اہم ہو سکتی ہے؟

