تحریر :میاں شمشاد سراائی
صحرائے تھل کا یہ عظیم اور زرخیز خطہ لیہ جس کا پردہ زہن پر تصور صرف اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ابھرتا کہ یہ اپنے دامن میں ریت، گرد و غبار ،مٹی اور صحرائی بگولوں کی متاع رکھتا ہو گا۔ لیکن جب لیہ کا بنظر غائر ادبی جائزہ لیا جائے تو لیہ اپنے جٙلو میں علمی ،ادبی اور ثقافتی رعنائیاں سمیٹے ہوئے تابندہ و درخشندہ ستارے کی طرح جگمگ جگمگ کرتا دکھائی دیتا ہے۔ لیہ کے اس علمی و ادبی ماحول کو رقم کرتے ہوئے اگر ہنگامہ 1947 سے قبل زبانِ قلم سے ان دو ہستیوں کا ذکر نہ ہو جو یقینا اور حقیقتاً لیہ کی پہچان بنی تو میرا خیال ہے کہ تاریخ ادب لیہ سے ناانصافی ہوگی اور تاریخ ادب تھل ان کے بغیر ادھوری دکھائی دے گی یہ وہ عظیم شخصیات ہیں جن کے علمی ،ادبی کمالات اور فن کو علم و ادب کے میدان میں تسلیم کیا گیا ہے ۔میں سمجھتا ہوں اگر اِن عظیم المرتبت شخصیات کو نکال لیں تو پھر شاید لیہ بھی قرب و جوار کے شہروں کی طرح دنیا ادب میں گمنام جگہ بن کر رہ جائے گا ان میں پہلا بڑا نام سرائیکی ادب ،
فارسی اور اردو کے عظیم دانشور اور محقق سائیں ڈاکٹر مہر عبدالحق سمرا مرحوم کا ہے جنہیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ اضلاعِ لیہ بھکر، مظفرگڑھ، ملتان اور ڈیرہ غازی خان میں سب سے پہلے سرائیکی زبان میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ آپ بیک وقت کئی زبانوں پر مکمل دسترس رکھتے تھے آپ نے متعدد کتب عربی، فارسی اور اردو میں اور سرائیکی میں زبان میں منظوم تراجم سے شائع کرائی ہیں آپ کا ایک عظیم کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے قران مجید کا سب سے پہلے سرائیکی زبان میں ترجمہ کیا لیہ کی اس عظیم شخصیت کی تخلیقات کا آج برصغیر کے علاوہ یورپ میں بھی اعتراف کیا جا رہا ہے ڈاکٹر شیکل نے آپ کی تخلیقات کو تسلیم کیا ہےاور متعدد مقالات لکھے جو کہ لیہ کے لیے بہت بڑا اعزاز ہے۔
دوسرا ایک عظیم اور بڑا نام اُس ہستی کا ہے جس کا اصل نام تو مولوی عبدالسمیع تھا لیکن نسیمِ لیہ کے نام سے معروف و مشہور ہوئے آپ ملک کے عظیم شاعر ہی نہیں بلکہ بلند پایہ نثر نگار بھی تھے آپ کو یہ ملکہ حاصل تھی کہ آپ نے اپنے نام کے ساتھ ساتھ لیہ شہر کے نام کو بھی روشن کیا بہرکیف یہ بھرپور نمائیندگی آپ کا حصہ ہے۔ بلکہ آپ کی شخصیت اور فن کے مظہر بھی ہیں آپ نے اپنی تخلیق کے ساتھ لیہ کو منسلک کر کے جہاں انہوں نے ادب میں اپنے شہر کو متعارف کرایا اس جذبے کے تحت ایک شعر میں نسیم لیہ نے اپنی سرزمین لیہ سے مخاطب ہو کر کچھ یوں فرمایا تھا کہ زمین شہر تیری ابرو فقط ہم ہیں ہمارے بعد تیرا کس نے نام لینا ہے چنانچہ اس عظیم ہستی پر تبصرہ کرتے ہوئے
ڈاکٹر خیال امرہوی مرحوم نے لکھا تھا ” نسیم صاحب کی زبان دو دھاری تلوار نگاہ ریزہ ہے فکر عرش مقام اور دل زخموں سے چور ملے گا دنیا کے ہر موضوع پر گھنٹوں بولنے والے یہ ظہیر کاشمیری کے بعد آپ کا پہلا نمبر آتا ہے تاریخ ادب لیہ کی ورق گردانی کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جب بر صغیر دو حصوں میں تقسیم ہوا تو کئی صاحبِ فن بستیاں ہجرت کر کے پاکستان کی مقدس سرزمین پر تشریف لائیں اس موقع پر لیہ کو بھی کئی گل ہائے رنگ رنگ شخصیات میسرآئیں۔ قافلہء کرب میں کچھ ایسے دُرِ نایاب ہاتھ لگے جن کی ادبی اور شعری کرنیں آج بھی جہان ادب کو منور کیے ہوئے ہیں ان میں ڈاکٹر فیاض قادری، حکیم غلام جیلانی فرمان، ڈاکٹر جگرانوی ذاکر جگرانوی، اختر گیلانی ساحل حسینی، غافل کرنالی فضل حق رضوی، تبسم پٹیالوی، عابد انبالوی شارق انبالوی شیدہ خان گڑیانوی ڈاکٹر قیصر رضوی، صوفی محمد عبداللہ،
فقیر میاں الہی بخش اور عثمان خان گڑیانوی کے اسمائے گرامی قابل ذکر دکھائی دیتے ہیں ان تمام شعراء میں سے ڈاکٹر فیاض قادری اور غافل کرنالی کو یہ اعزاز حاصل رہا ہے کہ انہوں نے عشقیہ شاعری کے ساتھ ساتھ بلند پایہ قومی شاعری بھی کی ہے۔ ڈاکٹر فیاض قادری کی سنگ بے آب اور غافل کرنالی کا نظمیہ مجموعہ جہاد قلم جس نے ادبی حلقوں میں کافی دھوم مچائی اور داد و تحسین وصول کی ان کے بعد ڈگری کالج لیہ کا جب قیام عمل میں آیا تو اس میں جعفر بلوچ مرحوم عباس خان ڈاکٹر اجمل نیازی مرحوم اور شعیب جاذب مرحوم بطور طالب علم داخل ہوئے جنہوں نے ادبی دنیا میں بہت بڑا نام کمایا المختصر مذکورہ شعراء کے دم قدم سے لیہ کے شعر و ادب کا پورا ماحول جگمگ جگمگ کرتا رہا ہے یہ وہ دور تھا جب متقدمین نے یہاں لیہ میں ادبی انجمنوں کی داغ بیل ڈالی اور ادبی انجمنوں کے دور کا آغاز ہوا جنہوں نے تھل کی ادبی روایت کو استحکام اور توانائی بخشی ۔لیہ کی ادبی تاریخ پر اگر نظر دوڑائیں تو 1944 سے قبل کسی ادبی انجمن کا ہمیں باضابطہ ذکر نہیں ملتا البتہ واقعاتِ کربلا اور امام عالی مقام حضرت امام حسین علیہ السلام پر سرائیکی دوھڑے اور بندوں کی صورت میں منظوم خراجِ عقیدت دکھائی دیتا ہے قیام پاکستان سے کچھ عرصہ قبل لیہ میں فروغ علم و ادب کے سلسلے میں باضابطہ ادبی انجمنیں معرض وجود میں آئیں اور انہوں نے تشنگانِ علم و ادب کی پیاس بجھائی ان میں انجمنوں میں "علم و ادب لیہ” قصرِ ادب لیہ، مجلس ادب لیہ، نیرنگ ادب لیہ، بزم تخلیق نو، بزم سرائیکی چمن، خیال اکیڈمی لیہ، بزمِ اخوت لیہ، نادر سرائیکی سنگت لیہ، بزم اردو لیہ، تھل دمان سرائیکی سنگت لیہ سانول سرائیکی سنگت لیہ باہو سرائیکی سنگت لیہ، بزم ِاہل قلم لیہ،سماجی تنظیم وسیب، پروگریسو سٹڈی سرکل لیہ، لیہ ادبی فورم لیہ، بزمِ دانش لیہ، اردو سخن لیہ ،بزمِ فروغ ادب و ثقافت لیہ سرائیکی لوک سمد کوٹ سلطان محفل یکتا کوٹ سلطان، بزمِ عارش ادبی ثقافتی سنگت جمن شاہ، بزم احباب سخن پہاڑپور، پاک برٹش انٹرنیشنل لیہ، ادبی سوسائٹی لیہ، امن سرائیکی ادبی سنگت بستی راں کروڑ لال عیسن، بزمِ شفقت بزدار لیہ، سانول سنگت پاکستان چوک اعظم بزمِ قلم دوست فتح پور، بزمِ لطیف فتح پور،ادبی قافلہ انٹرنیشنل لیہ، قلم قبیلہ شاخ لیہ بزم علم و فن لیہ اور منشی منظور ادبی فورم لیہ(ان ادبی تنظیموں اور انجمنوں کی تفصیل اور ادبی خدمات جلد پیش کی جائیں گی )
Легко ли быть наблюдателем, когда
вокруг творится зло и нельзя вмешаться, навести порядок, защитить?
Главный герой этого романа – дон Румата (землянин
Антон), который попадает на планету Арканар с экспериментальным
миром. На этой планете царит средневековая жестокость, фальшь
и борьба за власть. Но Румата не
должен вмешиваться. Он ученый,
который проводит эксперимент. Однако человек в нем берет вверх над ученым, сердце побеждает рассудок.
Разве можно спокойно наблюдать, как зло
побеждает добро, как талант растаптывается, а справедливости не существует?
Главному герою это не удается…
Трудно быть Богом