تحریر:عبدالرحمن فریدی
ستاروں کے احوال یا علمِ نجوم صدیوں سے انسانوں کی دلچسپی کا مرکز رہا ہے۔ اس علم کے ذریعے لوگ اپنے ماضی، حال اور مستقبل کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ ستاروں کی حرکت اور سیاروں کی پوزیشن کا انسانی زندگی پر اثرات کے حوالے سے مختلف نظریات پیش کیے جاتے ہیں، علمِ نجوم میں بارہ برج یا زائچے شامل ہوتے ہیں جو ہر شخص کی تاریخ پیدائش کے مطابق ہوتے ہیں۔ ہر برج کا ایک مخصوص ستارہ اور سیارہ ہوتا ہے جسے اس برج کی خصوصیات اور فرد کی شخصیت پر اثر انداز سمجھا جاتا ہے
- حمل (Aries): مریخ (Mars) – طاقتور، بہادر، خود مختار
- ثور (Taurus): زہرہ (Venus) – محبت پسند، مال و دولت کے خواہاں، وفادار
- جوزا (Gemini): عطارد (Mercury) – ذہین، متجسس، دوہری شخصیت
- سرطان (Cancer): قمر (Moon) – حساس، جذباتی، خیال رکھنے والے
- اسد (Leo): شمس (Sun) – خود اعتماد، قائدانہ صلاحیتیں، خوش مزاج
- سنبلہ (Virgo): عطارد (Mercury) – تجزیاتی، منظم، مخلص
- میزان (Libra): زہرہ (Venus) – توازن پسند، خوبصورتی کے دلدادہ، سفارتی
- عقرب (Scorpio): مریخ (Mars) – پراسرار، جذباتی، پرجوش
- قوس (Sagittarius): مشتری (Jupiter) – آزاد منش، فلسفیانہ، مہم جو
- جدی (Capricorn): زحل (Saturn) – محنتی، عملی، ذمہ دار
- دلو (Aquarius): زحل (Saturn) – انقلابی، جدت پسند، فکری
- حوت (Pisces): مشتری (Jupiter) – خواب دیکھنے والے، ہمدرد، تخلیقی
ستاروں کے اثرات پر اگر بات کی جائے توہر سیارہ اور برج مخصوص خصوصیات کا حامل ہوتا ہے اور انسان کی شخصیت، رویے، کامیابیوں اور تعلقات پر اثر انداز ہوتا ہے۔ ستاروں کی پوزیشن اور حرکت کو مدنظر رکھ کر نجومی مختلف پیشن گوئیاں کرتے ہیں۔علم نجوم میں ستاروں کے احوال معلوم کرنے کے لیے مختلف زائچے بنائے جاتے ہیں، جن میں وقت، تاریخ اور جگہ کی بنیاد پر ستاروں کی پوزیشن کا حساب کیا جاتا ہے۔ اس کے ذریعے فرد کی شخصیت، اس کے مستقبل اور مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی جاتی ہے، ستاروں کے احوال علم نجوم کا ایک پیچیدہ موضوع ہے، لیکن اس میں دلچسپی رکھنے والے لوگ اسے اپنی زندگی میں رہنمائی کے طور پر دیکھتے ہیں۔ حالانکہ اس علم کی سائنسی بنیاد کمزور ہے، لیکن یہ دنیا بھر میں مقبول ہے۔
اگر اسلامی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو "ستاروں کے احوال” یا علمِ نجوم (Astrology) ایک حساس موضوع ہے جسے مختلف زاویوں سے دیکھا گیا ہے۔ اسلام کے مطابق انسان کی قسمت اور مستقبل کا علم صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے، اور ستاروں یا سیاروں کے ذریعے مستقبل کی پیشن گوئی کرنا یا اس پر یقین رکھنا منع ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق، انسان کو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کے مکمل اختیار پر ایمان رکھنا چاہیے۔ قرآن مجید اور احادیث میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ مستقبل کے واقعات، تقدیر اور قسمت کا علم صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ ستارے اور سیارے اللہ کی تخلیق ہیں، اور ان کا مقصد آسمان کی زینت اور ہدایت کا ایک ذریعہ ہے، لیکن ان کے ذریعے غیب کی باتیں جاننے یا پیشن گوئیاں کرنے کی کوئی گنجائش نہیں، اسلامی نقطہ نظر کے مطابق ستارے اور سیارے اللہ کی قدرت کی نشانیوں میں سے ہیں، جو انسانوں کو اللہ کی عظمت اور وحدانیت کی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:"اور بے شک ہم نے آسمان کو ستاروں سے زینت دی ہے.(سورة الملک: 5)یہ آیت ہمیں بتاتی ہے کہ ستارے آسمان کی زینت ہیں اور ان کا مقصد اللہ کی تخلیق کی خوبصورتی کو ظاہر کرنا ہے۔ مزید یہ کہ ستاروں کا ذکر بحری اور زمینی راستوں کی نشاندہی کے لیے بھی کیا گیا ہے:"اور وہی ہے جس نے تمہارے لیے ستارے بنائے تاکہ تم ان کے ذریعے خشکی اور سمندر کی تاریکیوں میں راستہ پا سکو۔ (سورة الأنعام: 97 اسلامی تعلیمات میں علم نجوم (Astrology) کو دو قسموں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:1. علم الفلک (Astronomy): یہ علم وہ ہے جو ستاروں اور سیاروں کی حرکت اور ان کی فطری خصوصیات پر مبنی ہے۔ اس علم کو اسلامی نقطہ نظر میں جائز سمجھا جاتا ہے کیونکہ یہ سائنسی بنیادوں پر ہے اور قدرتی دنیا کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔2. علم نجوم (Astrology) یا غیب کی پیشن گوئی: اسلام میں نجومی علم، یعنی ستاروں یا سیاروں کے ذریعے قسمت یا مستقبل کی پیشین گوئی کرنے کو سختی سے منع کیا گیا ہے۔ احادیث میں اس عمل کو شرک کے قریب قرار دیا گیا ہے۔ حضرت محمد ﷺ نے فرمایا:"جو شخص نجومیوں کے پاس جاتا ہے اور ان سے کسی چیز کے بارے میں پوچھتا ہے، تو اس کی چالیس دن کی نمازیں قبول نہیں ہوتیں (مسلم)یہ حدیث اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ نجومیوں پر یقین رکھنا یا ان سے مدد لینا سخت ناپسندیدہ ہے۔ اسلام میں تقدیر کا تصور بہت اہم ہے۔ قرآن اور حدیث کے مطابق، انسان کی تقدیر اللہ کے ہاتھ میں ہے، اور کوئی انسان یا مخلوق مستقبل کو نہیں جان سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا:"کہہ دو کہ آسمانوں اور زمین میں غیب کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں. (سورة النمل: 65)اس آیت میں واضح کیا گیا ہے کہ غیب کا علم صرف اللہ کے پاس ہے، اور کسی کو بھی یہ علم نہیں دیا گیا کہ وہ ستاروں یا سیاروں کے ذریعے مستقبل کی پیشین گوئی کرے۔ اسلامی نقطہ نظر کے مطابق، ستاروں اور سیاروں کی تخلیق اللہ کی قدرت کی نشانیاں ہیں اور ان کا علم انسان کو اللہ کی قدرت کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔ تاہم، ان کے ذریعے قسمت یا مستقبل کا علم جاننے کی کوشش کرنا منع ہے۔ مسلمانوں کو اپنی تقدیر اور قسمت کا بھروسہ صرف اللہ پر رکھنا چاہیے اور ان چیزوں میں نہیں پڑنا چاہیے جو انسان کو شرک یا اللہ پر ایمان میں کمی کی طرف لے جائیں۔اسلامی تعلیمات ہمیں سکھاتی ہیں کہ ہمارا ایمان اللہ کی مرضی اور تقدیر پر ہونا چاہیے، نہ کہ ستاروں یا نجومیوں کی باتوں پر۔