تحریر جام احمد نواز ایڈووکیٹ
ایک ہی دن میں دو وکلا کی شہادت وہاڑی میں نوجوان وکیل ذیشان شبیر ایڈووکیٹ کو ذاتی رنجش پر پولیس نے گھر میں گھس کر شہید کردیا جبکہ جھنگ کی سر زمین پر سابق صدر بار منیر احمد سدھانہ کو دن دیہاڑے روڈ پر شہید کردیا گیا ۔ یہ شہادتیں نظام انصاف کے منہ پر ایسا زخم ہیں جس سے خون مسلسل رس رہا ہے۔ قانون کے محافظ آئین کے سپاہی… آج خود اپنے گھروں میں اپنی گلیوں اور اپنی عدالتوں میں غیر محفوظ کھڑے ہیں۔ وکلا کی شہادت کی سیکنڑوں واقعات اس سے پہلے بھی ہوچکے ہیں ۔۔۔۔
یہ ملک جس نے اپنے قیام سے آج تک قانون وکالت اور وکلاء کے کندھوں پر سفر کیا ہے ۔ یہ وہ ملک کے جس کے بانی بھی وکیل تھے یہ وہ ملک جہاں عدالتوں میں کھڑے وکیل ہی عام شہریوں کے حقوق کے محافظ بنے وہ ملک جس نے دلیل کو طاقت سے اور آئین کو بندوق سے ہمیشہ بڑا سمجھا ۔ یہ ملک ہے جہاں وکلا نے آئین کے تحفظ اور انسانی حقوق ہیومین رائٹس کیلے ماریں کھائیں ۔۔۔۔
آج اسی ملک می انہی وکلا کے خون سے زمین سرخ ہو رہی ہے وہ لوگ جو دوسرے لوگوں کے حقوق کے محافظ بنتے ہیں آج خود جانی و مالی طور پر غیر محفوظ ہیں جو دوسروں کے حق کے لیے لڑتے تھے آج اپنی جان کے تحفظ کے لیے لڑ رہے ہیں۔۔۔۔
اس سے بڑا المیہ کیا ہوگا کہ جس پیشے نے اس ملک کو ایک جمہوری شناخت دی
آج اسی پیشے کے سپاہی اپنی ہی دھرتی پر غیر محفوظ کھڑے ہیں
ایک ایسا ملک جہاں آئین و قانون کے محافظ خود زندگی کی امان مانگنے پر مجبور ہو جائیں تو سمجھ لیں کہ نظام کی دیواریں ہل چکی ہیں اور خطرے کی گھنٹی بج چکی ہے آج اگر بات شہید ذیشان شبیر کے گھر تک پہنچ چکی تو کل باری ہماری ہوگی ۔۔۔۔
میں لوگوں کے حقوق کی بات کرنے والا ان کے حقوق پر لکھنے والا آج اپنے حقوق پر بات کرنا چاہتا آج اپنے حقوق کیلے لکھنا چاہتا ہوں کیونکہ اگر آج وکلا غیر محفوظ ہیں تو یقین کریں کل یہ عدم تحفظ میرے دروازے پر بلکہ ہر شہری کے دروازے پر دستک دے گا۔۔۔۔
ایک نوجوان جب وکالت کا سفر شروع کرتا ہے تو اس کے ہاتھ میں قلم کتاب اور دل میں خواب ہوتیں ہے اس خواب کو پورا ہونے میں 25 سے 30 سال لگ جاتے ہیں۔ ایک نوجوان کی جوانی گزر جاتی ہے ایک باپ کی داڑھی سفید ہو جاتی ہے ۔ 20 سالہ تعلیم لاکھوں کی فیسز ہزاروں خوابوں کی قربانیوں کے بعد ایک نوجوان وکیل بننے میں کامیاب ہوتا ہے۔۔۔
ہر دوسرے گھر کا بچہ آج وکیل بننا چاہتا ہے ۔ ہزاروں بچے وکیل بننے کیلے کا ایڈمیشن ٹیسٹ LAT دینے سینٹرز پہنچتے ہیں لیکن ان میں چند بچے ہی پاس ہوکر میرٹ بنانے میں کامیاب ہوپاتے ہیں ان چند میں یعنی 50 کی کلاس میں بھی 30 سے 40 بچے ہی 5 سال بعد ڈگری حاصل کرپاتے ہیں ان میں سے بھی صرف 10 یا 15 بچے وکالت کو شعبے کو جوائن کرنے کی ہمت کرتے ہیں جن میں 1 یا 2 بچے ہی سیکنڑوں سال کی محنت کے بعد کامیاب وکیل بن پاتے ہیں۔۔۔
جب کوئی ایک نوجوان وکیل بنتا ہے تو وہ اکیلا کامیاب نہیں ہوتا اسکے پیچھے بزرگ باپ استاتذہ فیملی اور کئی چہروں کا ساتھ ہوتا ہے ۔ جو آگے جاکے مان میں بدل جاتا ہے کہ ساڈا منڈا وکیل بن گیا اے او ساڈی حفاظت کرے گا ۔۔۔
سوچیں آج ایک ہی دن میں دو وکلاء کی شہادتیں پوری برادری کا نوحہ ہے۔ یہ قتل صرف دو وکلا کا نہیں بلکہ یہ ہر نوجوان قانون کے طالب علم کی آنکھ کا خواب کا قتل تھا ۔ یہ ہر اُس شخص کے مستقبل پر حملہ ہے جو اس پیشے میں آنے کے بعد انقلاب لانے کے خواب سجائے ہوئے تھے ۔۔۔
یہ وقت حکمرانوں اور وکلا نمائندگان دونوں کے لیے ایک کڑی آزمائش ہے۔ اگر اب بھی خاموشی رہی اگر اب بھی صرف رسمی بیانات دیے گئے اگر آج بھی محض مذمت پر اکتفا کیا گیا تو یہ سلسلہ رکے گا نہیں اب بات ہمارے گھر تک آن پہنچی ہے آج ایک وکیل کو گھر میں گھس کر شہید کیا گیا ہے تو کل کسی دوسرے وکیل بھائی کی باری ہوگی ۔۔۔۔
یہ آج دو شہید ہیں کل دس ہوں گے پرسوں شاید ہر گلی تک یہ آگ پہنچ جائے۔
اس لیے ضروری ہے کہ ان کیسز کو ٹیسٹ کیسز سمجھا جائے اور ان میں ملوث افراد کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔۔۔۔
وکلا کی حفاظت کیلے سنجیدہ اقدامات کیے جائیں وکلا کو ہنگامی بنیادوں پر اسلحہ کے لائسنس دیے جائیں تاکہ وہ کم از کم اپنی جان کی حفاظت کر سکیں۔ کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جو صبح عدالت جاتے ہیں تو انہیں یقین نہیں ہوتا کہ شام تک واپس بھی پہنچیں گے یا نہیں۔۔۔۔۔
اسی طرح وکلا کے خلاف ہونے والے کیسز یا شکایتیں پولیس کے حوالے نہ کی جائیں۔ بار بار دیکھا گیا ہے کہ پولیس اہلکار اپنی ذاتی دشمنیاں نبھاتے ہیں اور حالات تعصب کی طرف جھک جاتے ہیں۔ ایسے کیسز کسی آزاد ایجنسی یا بارز کی اپنی انکوائری باڈی کے سپرد کیے جائیں تاکہ انصاف غیر جانبداری کے ساتھ سامنے آئے۔جب تک وکیل کے کیس کی تفتیش غیر جانبدار ادارے نہیں کریں گے تب تک وکیل محفوظ نہیں رہ سکتا۔۔۔۔۔
وکلا کی شہادت کے بعد ان کے خاندان کی مالی معاونت بھی ریاست اور بار کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔
ایک وکیل کے پیچھے پورا گھر ہوتا ہے۔
ایک مستقبل ہوتا ہے۔ایک امید ہوتی ہے۔
اگر وہ شہید ہو جائے تو اس کے بچوں کو فیسیں کون دے گا گھر کیسے چلے گا ذمہ داریاں کون اٹھائے گا۔۔۔؟یہ خلا کوئی پُر نہیں کر سکتا مگر مالی معاونت کم از کم اس خاندان کے دکھ کو کچھ حد تک سہارا دے سکتی ہے۔۔۔۔۔
وکلا کے پیشے کی سب سے بڑی تباہی پرائیویٹ لا کالجز سے بھی ہو رہی ہے جہاں بغیر میرٹ کے ڈگریاں بانٹی جا رہی ہیں۔ ایک بچہ جو 90 فیصد نمبر لے کر میرٹ پر سرکاری ادارے میں داخل ہوتا ہے اور برسوں کی محنت کے بعد بلیک کوٹ تک پہنچتا ہے اس کے ساتھ ناانصافی ہوتی ہے جب کوئی دوسرا شخص بغیر کسی میرٹ اور قابلیت کے صرف پیسے کے زور پر ڈگری حاصل کر لیتا ہے۔
جس سے نہ صرف اس محنتی طالب علم کا حق مارا جاتا ہے بلکہ پورے پروفیشن کی بدنامی ہے۔
ضروری ہے کہ ان غیر معیاری کالجز کو بند کیا جائے یا کم از کم سخت ترین معیار کے تحت لایا جائے تاکہ وکالت کے نام پر کاروبار ختم ہو اور پروفیشن کا وقار بحال ہو۔۔۔۔۔۔
یہ لمحہ فیصلہ کن ہے۔ وکلاء اور وکالت جیسے مہذب پروفیشن کی فلاح اور بقا کیلے سنجیدہ اقدامات کیے جائیں
حکمران اور وکلاء نمائندگان عملی قدم اٹھائیں وکلا کی حفاظت ریاست کی ذمہ داری ہے اور یہ ذمہ داری اب مزید تاخیر برداشت نہیں کرتی۔۔۔۔۔
انصاف زندہ رہے گا جب تک وکیل زندہ رہیں گے۔سور اگر وکیل ہی غیر محفوظ ہو گئے تو پھر نہ عدالت بچے گی نہ انصاف۔

