اسلام آباد (لیہ ٹی وی) حکومت پاکستان نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساختیاتی معیار (اسٹرکچرل بینچ مارک) پر پورا اترنے کے لیے سول سرونٹس ایکٹ میں ترمیم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس ترمیم کے تحت گریڈ 17 سے 22 کے اعلیٰ سرکاری افسران کے اثاثوں کو ظاہر کرنا لازمی ہوگا۔ یہ اقدام آئی ایم ایف کی جانب سے گورننس میں شفافیت اور کرپشن کی روک تھام کے مطالبات کے تحت اٹھایا جا رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق، حکومت کو یہ ترمیم فروری 2025 کے آخر تک مکمل کرنی ہوگی اور پارلیمنٹ سے اس کی منظوری لینا ضروری ہوگا۔ اس قانون سازی کے بعد سرکاری افسران کے ملکی و غیر ملکی اثاثے، بشمول ان کے اہل خانہ کے نام پر موجود اثاثے، ڈیجیٹل پورٹل پر فائل کیے جائیں گے اور عوامی سطح پر قابلِ رسائی ہوں گے۔ تاہم شناختی نمبرز، رہائشی پتے، اور بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات کو خفیہ رکھا جائے گا تاکہ پرائیویسی کے خدشات کا ازالہ کیا جا سکے۔ حکومت کی جانب سے اس اقدام کو شفافیت اور احتساب کے فروغ کے لیے ایک اہم سنگ میل قرار دیا جا رہا ہے۔ اس ضمن میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر)ایک مضبوط ڈیجیٹل سسٹم تیار کرے گا، جبکہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن ایک جامع فریم ورک کے تحت ان اثاثوں کی جانچ پڑتال کو یقینی بنائے گا۔ دوسری جانب، آئی ایم ایف نے پیر کے روز گورننس اور کرپشن ڈائیگنوسٹک اسیسمنٹ کے تکنیکی مشن کے تحت ایف بی آر حکام سے ملاقات کی، جس میں انسانی وسائل، انٹیگریٹی مینجمنٹ سیل، بھرتیوں کے عمل، اور سرکاری اہلکاروں کے معاوضوں پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ آئی ایم ایف کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کرپشن، سرخ فیتہ (بیوروکریٹک رکاوٹیں)، اور غیر مستحکم کاروباری ماحول پاکستان کی سماجی و اقتصادی ترقی میں بڑی رکاوٹیں ہیں۔ آئی ایم ایف نے تجویز دی ہے کہ حکومت کو ایسے گروہوں سے نمٹنے کی ضرورت ہے جو اصلاحات میں رکاوٹ ڈالنے یا ان کے نفاذ کو مؤثر طریقے سے روکنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ آئی ایم ایف کا تکنیکی مشن اپریل 2025 میں پاکستان کا دورہ کرے گا تاکہ اپنی رپورٹ مرتب کرے، جو جولائی 2025 کے آخر تک شائع کی جائے گی۔ حکومت نے اس بات پر بھی اتفاق کیا ہے کہ نیب قوانین میں ترمیم کی جائے گی تاکہ اس کی آزادی اور مؤثریت کو یقینی بنایا جا سکے، جبکہ صوبائی اینٹی کرپشن اداروں کو مزید بااختیار بنایا جائے گا تاکہ وہ منی لانڈرنگ کیسز کی تحقیقات کر سکیں۔