تحریر:مولانا محمد الیاس گھمن
دنیا بھر کے نامور لیڈروں، تحریکوں کے بانیوں اورقائدین کی نظرمیں قائد اعظم کی ایمانی فراست، جذبہ حریت اور مسلسل محنت کا اعتراف کھلے لفظوں میں تاریخ کی پیشانی پر سنہرے الفاظ میں درج ہے۔ علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ جوتحریک پاکستان کے سرگرم لیڈراورآل انڈیا مسلم لیگ ورکنگ کمیٹی کے عظیم رکن تھے، قائد اعظم محمد علی جناح کے دست وبازو بن کر الگ،آزاد مسلم ریاست کی جدوجہد میں شریک عمل تھے۔ وہ قائدِ اعظم کی جلوت و خلوت اور ان کی ایمانی و سیاسی کوششوں کو قریب سے دیکھ چکے تھے، قائد اعظم کے متعلق فرماتے ہیں:’’بادشاہ اورنگزیب عالمگیر کے بعد ہندوستان نے اتنا بڑا مسلمان لیڈر پیدا نہیں کیا جس کے غیر متزلزل ایمان اور اٹل ارادے نے دس کروڑ شکست خوردہ مسلمانوں کو کامرانیوں میں بدل دیا ہو۔‘‘
آپ 25 دسمبر 1876ء کو روشنیوں کے شہر کراچی میں پیدا ہوئے۔ آپ بہن بھائیوں میں سے سب سے بڑے تھے۔آپ کے والد گجرات کے مالدار تاجر تھے جو کاٹھیاوار سے کراچی منتقل ہو گئے تھے۔آپ نے باقاعدہ تعلیم کراچی مشن ہائی سکول سے حاصل کی۔ 1887ء کو آپ برطانیہ میں گراہم سپنگ اینڈ ٹریڈنگ کمپنی میں کام سیکھنے کے لیے گئے۔ برطانیہ جانے سے پہلے آپ کی شادی آپ کی ایک دور کی رشتہ دار ایمی بائی سے ہوئی جو کی آپ کے برطانیہ جانے کے کچھ عرصہ بعد ہی وفات پا گئیں۔ لندن جانے کے کچھ عرصہ بعد آپ نے ملازمت چھوڑ دی اور لنکن اِن میں قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے داخلہ لے لیا اور 1896ء میں وہاں سے قانون کی ڈگری حاصل کی۔ اس وقت آپ نے سیاست میں بھی حصہ لینا شروع کر دیا۔انڈیا واپس آنے کے بعد آپ نے ممبئی میں وکالت شروع کی اور آپ کا شمار ان شہہ دماغ وکلاء کی صف میں ہونے لگا جو حالات کو بھانپتے بھی ہیں، ادراک بھی کرتے ہیں اور مسائل کے حل کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کرتے ہیں۔
جذبہ آزادی اور تحریکات میں شمولیت:
قائد اعظم کے دل میں مسلمانوں کی خود مختاری، آزادی اور الگ اسلامی ریاست کے نیک جذبات تھے۔ ان کی نظر میں آزادی کا صحیح راستہ قانونی اور آئینی ہتھیاروں کو استعمال کرنا تھا۔ اس لیے انہوں نے اس زمانے کی ان تحریکوں میں شمولیت اختیار کی جن کا فلسفہ ان کے خیالات کے مطابق تھا۔ کچھ عرصہ بعد مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی۔ آزادی وطن اور مسلمانوں کے بنیادی حقوق کی خاطر مسلم لیگ کو اتنا منظم کیا کہ جس نے کچھ عرصہ میں دس کروڑ لوگوں کو ان کی گم شدہ متاع آزادی و خودمختاری سے مالامال کر دیا۔
قرآن کریم میں غور وخوض:
عبدالرشید بٹلر جو اْن دنوں گورنر ہاؤس پشاور میں بٹلر تھے جب قائداعظم گورنر جنرل کی حیثیت سے سرحد کے دورے پر گئے اور گورنر ہاؤس پشاور میں قیام کیا۔ اس دوران عبدالرشید بٹلر نے قائد اعظم کو قریب سے دیکھا وہ اپنا چشم دید واقعہ بیان کرتے ہیں۔ قائد اعظم بیٹھے خوب کام کر رہے تھے۔دن بھر کی مصروفیات کے باوجود انہوں نے آرام نہیں کیا۔ جب کام کرتے کرتے تھک جاتے توکمرے میں اِدھر اْدھر جاتے۔ میں نے خود دیکھا کہ انگیٹھی (مینٹل پیس) پر رحل میں قرآن پاک رکھا ہوا ہے،اس پر ماتھا رکھ کر رو پڑتے تھے۔عبدالرشید بٹلر اسی رات کا واقعہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اسی رات۔ آدھی رات کا وقت تھا۔ ہر کوئی گہری نیند سو رہا تھا۔ ڈیوٹی پر موجود پولیس اپنا فرض ادا کر رہی تھی کہ اچانک ٹھک ٹھک کی آواز گورنمنٹ ہاؤس کا سناٹا چیرنے لگی۔ آواز میں تسلسل اور ٹھہراؤ تھا۔ میں فوراً چوکس ہوا۔ یہ آواز قائداعظم کے کمرے سے آرہی تھی۔ ہمیں خیال آیا اندر شاید کوئی چورگھس گیا ہے۔ ڈیوٹی پرموجود پولیس افسر بھی ادھر آگئے۔ پولیس اِدھر اْدھرگھوم رہی تھی کہ اندر کس طرح جھانکا جائے؟ ایک ہلکی سی درز شیشے پر سے پردہ سرکنے سے پیدا ہوچکی تھی۔اس سے اندر کی موومنٹ دیکھی جاسکتی تھی۔ ہم کیا دیکھتے ہیں کہ قائداعظم انگیٹھی کے قریب رکھے ہوئے قرآن حکیم پر سر جھکائے کھڑے ہیں۔ چہرہ آنسوؤں سے تر ہے۔ تھوڑی دیر بعد وہ کمرے میں ٹہلنا شروع کردیتے ہیں۔ پھر قرآن حکیم کی طرف آتے ہیں اس کی کسی آیت کا مطالعہ کرنے کے بعد پھر چلنے لگتے ہیں۔ جب ان کے پاؤں لکڑی کے فرش پر پڑتے ہیں تو وہ آواز پیدا ہوتی ہے جس نے ہمیں پریشان کر رکھا تھا۔ آیت پڑھ کر ٹہلنا یعنی وہ غور کر رہے تھے کہ قرآن کیا کہتاہے۔ اس دوران میں وہ کوئی دعابھی مانگ رہے تھے۔(دی گریٹ لیڈر از منیر احمد، ص 239)
بعض قرآنی احکام کا اجراء :
جنرل اکبر نہایت سینئر جرنیل تھے اور قیام پاکستان کے وقت بحیثیت میجر جنرل کمانڈر فرسٹ کور تعینات ہوئے۔ جنرل اکبر 25جون 1948ء کو وہاں پہنچے ان کی قائداعظم سے کئی ملاقائیں ہوئیں۔ ایک ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے جنرل اکبر کہتے ہیں: ’’ہمارے افسروں کے سکولوں میں ضیافتوں کے وقت شراب سے جام صحت پیا جاتا ہے کیونکہ یہ افواج کی قدیم روایت ہے۔ میں نے قائداعظم سے کہا کہ شراب کے استعمال کو ممنوع کرنے کااعلان فرمائیں۔ قائداعظم نے خاموشی سے اپنے اے ڈی سی کوبلوایا اور حکم دیا کہ’’میرا کانفیڈریشن باکس لے آؤ‘‘جب بکس آ گیا تو قائداعظم نے چابیوں کاگچھا اپنی جیب سے نکال کر بکس کو کھول کر سیاہ مراکشی چمڑے سے جلد بند ایک کتاب نکالی اوراسے اس مقام سے کھولا جہاں انہوں نے نشانی رکھی ہوئی تھی اور فرمایا جنرل یہ قرآن مجید ہے اس میں لکھا ہوا ہے ” شراب و منشیات حرام ہیں۔” تبادلہ خیال کے بعد سٹینو کو بلوایا گیا۔قائداعظم نے ایک مسودہ تیار کیا، قرآنی آیات کا حوالہ دیکر فرمایا شراب و منشیات حرام ہیں۔میں نے مسودے کی نقل لگا کر اپنے ایریا کے تمام یونٹ میں شراب نوشی بند کرنے کاحکم جاری کیا۔جو میری ریٹائرمنٹ تک موثر رہا، میں نے قائد اعظم سے عرض کیا کہ ہم نے بنیادی طور پر آپ کی تقریروں سے رہنمائی حاصل کی ہے آپ نے فرمایا: ہم مسلمانوں کو زندگی کے ہر شعبے سے قرآن مجید سے رہنمائی لینی چاہیے۔ ‘‘(میری آخری منزل، ص 281)
قائداعظم کی تمنا:
آل انڈیامسلم لیگ کونسل سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:’’مسلمانو! میں نے دنیا میں بہت کچھ دیکھا۔ دولت، شہرت اور عیش و عشرت کے بہت لطف اٹھائے۔ اب میری زندگی کی واحد تمنا یہ ہے کہ مسلمانوں کو آزاد سربلند دیکھوں۔ میں چاہتاہوں کہ جب مروں تو یہ یقین اور اطمینان لے کر مروں کہ میرا ضمیر اور میراخدا گواہی دے رہا ہو کہ جناح نے اسلام سے خیانت اور غداری نہیں کی اور مسلمانوں کی آزادی، تنظیم اور مدافعت میں اپنا فرض ادا کردیا۔ میں آپ سے داد اور صلہ کا طلب گار نہیں ہوں۔ میں یہ چاہتا ہوں کہ مرتے دم میرا اپنا دل، میرا ایمان اور میرا ضمیر گواہی دے کہ جناح تم نے واقعی مدافعت اسلام کا حق ادا کر دیا۔ جناح تم مسلمانوں کی تنظیم، اتحاد اور حمایت کا فرض بجا لائے۔ میرا خدا یہ کہے کہ بے شک تم مسلمان پیدا ہوئے اور کفر کی طاقتوں کے غلبہ میں اسلام کو بلند رکھتے ہوئے مسلمان مرے۔‘‘(انقلاب لاہور 22اکتوبر 1939 )
شریعت اسلامی سے رہنمائی:
4مارچ 1946ء قائد اعظم نے شیلانگ میںخطاب کرتے ہوئے فرمایا:’’ہندو بت پرستی کے قائل ہیں، ہم نہیں ہیں۔ ہم مساوات، حریت اور بھائی چارے کے قائل ہیں جبکہ ہندو ذات پات کے بندھن میں جکڑے ہوئے ہیں۔ہمارے لیے یہ کس طرح ممکن ہے کہ ہم صرف ایک بیلٹ بکس میں اکٹھے ہو جائیں۔ آئیے اپنی کتاب مقدس قرآن حکیم اور حدیث نبوی اور اسلام کی عظیم روایات کی طرف رجوع کریں جن میں ہماری رہنمائی کے لیے ہر چیز موجود ہے۔ ہم خلوص نیت سے ان کی پیروی کریں اور اپنی عظیم کتاب قرآن کریم کا اتباع کریں… ‘‘تو یہ الفاظ ان کے قلب کی گہرائیوں سے نکل رہے تھے اور اس جذبے کے ساتھ قائد اعظم نے مشورہ دیا …’’ہر مسلمان کے پاس قرآن کریم کا ایک نسخہ ہونا چاہئے تاکہ وہ اپنی رہنمائی خود کر سکے۔ کیونکہ قرآن ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو زندگی کے ہرشعبے پر محیط ہے۔ ‘‘
جنازہ پڑھانے کی وصیت:
قائد اعظم محمد علی جناح علماء کرام کی حد درجہ عزت و تعظیم کرتے، بالخصوص جب سے حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ سے تعلقات استوار ہوئے تب سے ان کے دل میں علم اور علماء کی عظمت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ آپ تحریک آزادی پاکستان میں ان علماء سے مسلسل مشاورت اور رہنمائی لیتے رہے اور علماء کرام بھی حصول آزادی اور پاکستان کو اسلامی ریاست بنانے کے لیے ہر طرح سے بھرپور کوشش کرتے رہے۔ برصغیر کے مسلمانوں میں اسلامی ریاست کے حصول کے لیے جذبہ آزادی کی روح پھونکی۔ آپ نے بھی ان کو کسی موقع پر نظرانداز نہیں کیا یہی وجہ ہے کہ اپنی وفات سے کچھ روز قبل وزیر اعظم لیاقت علی خان کو جو ہدایات دیں ان میں اپنے جنازے کے متعلق بھی وصیت ذکر کی ہے۔
پاکستان کے پہلے وزیر اعظم کو ہدایت:
بریگیڈئر نور حسین جو کہ بطور کیپٹن قائد اعظم کے اے ڈی سی تھے اور قائد اعظم کے آخری سانسوں تک ان کے ساتھ رہے، کہتے ہیں:جب وزیر اعظم لیاقت علی خان آخری ایام میں قائد اعظم سے ملنے زیارت آئے تو اس وقت قائد اعظم نہایت کمزور اور نحیف ہو چکے تھے، بستر تک محدود تھے اور انہیں جان لیوا مرض کا اندازہ ہو چکا تھا۔ وزیر اعظم اور گورنر جنرل (قائد اعظم )کی ون ٹو ون ملاقات میں قائد اعظم نے نوابزادہ لیاقت علی کو کچھ ہدایات دیں جن میں یہ ہدایت بھی شامل تھی کہ میری نماز جنازہ مولانا شبیر احمد عثمانی پڑھائیں۔ چنانچہ وزیر اعظم جب قائد اعظم سے ملاقات کر کے نیچے اترے اور اے ڈی سی کے کمرے میں آئے تو انہوں نے اسی کمرے سے فون کر کے کراچی پیغام دیا کہ مولانا شبیر احمد عثمانی صاحب سے گزارش کی جائے کہ وہ کراچی ہی میں موجود رہیں۔ (پاکستان میری محبت، صفحہ 68)
قائد اعظم کے جنازہ پر علامہ عثمانی کی تقریر:
علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ نے قائد اعظم کا جنازہ پڑھایا جس میں تقریباً چار لاکھ افراد نے شرکت کی۔ بعد میں شرکاء جنازہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: قائد اعظم کی جدائی سے پاکستان کو ہی نہیں بلکہ سارے عالم اسلام کو نقصان پہنچا ہے آپ نے لوگوں کے دلوں کو مسخر کر لیا تھا اور ان پر آپ کی حکومت تھی۔ ایک مدبرکی حیثیت سے قائد اعظم محمد علی جناح اعلیٰ تر اور ناقابل موازنہ حیثیت کا انسان تھا،آپ کو دنیا کا کوئی بھی انسان خرید نہیں سکتا تھا اور کوئی بھی انسان آپ کو کسی قانونی یا آئینی مسئلہ پر بے وقوف نہیں بنا سکتا تھا۔ قائد اعظم ایک غریب اور بے علم قوم کا رہنما تھا اور تمام دنیوی آسائشوں کو ٹھکرا کر اپنی قوم کے پامال لوگوں کی بہتری کے لیے شب وروز مصروف خدمت رہتا تھا۔ اس نے عہد اورنگ زیب کی اسلامی شوکت کی یاد تازہ کر دی تھی اور اس سرزمین کے لیے مسلمان ان تمام خدمات کے عوض جو آپ نے مسلم قوم کے لیے انجام دی تھیں آپ کے ہمیشہ خدمت گزار رہیں گے۔ قائد اعظم مجھ سے فرمایا کرتے تھے ان شاء اللہ وہ دن قریب ہے جب کراچی اسلامی ممالک کا مرکز ہوگا۔ کراچی سے لے کر انقرہ تک، کراچی سے لے کر مراکش تک، کراچی سے لے کر چین تک مسلمانوں کا ایک مضبوط بلاک بنایا جائے گا جس کی قیادت کے فرائض ان شاء اللہ تعالیٰ پاکستان ادا کرے گا۔ وہ نحیف انسان تھا لیکن وہ پہاڑوں سے ٹکرانے کی قوت رکھتا تھا۔ جب پہلے پہل انہوں نے پاکستان کا تخیل پیش کیا تو ہم میں کوئی بھی ایسا نہ تھا جو یہ یقین رکھتا ہو کہ پاکستان کبھی حقیقت بن سکے گا۔ لیکن اس مرد مجاہد کے استقلال، عزم، ایثار، سیاسی ذہانت اور تدبر نے خدا کے فضل و کرم سے ایک ناممکن امر کو ممکن بنا کر دکھا دیا۔ پاکستان بنا تو انہوں نے مجھ سے فرمایا: مولانا!پاکستان صحیح معنوں میں ایک اسلامی جمہوریہ ملک ہوگا۔ جس میں ہر شخص کو ابھرنے اور ترقی کرنے کے مواقع حاصل ہوں گے، شریعت کا بول بالا ہوگا۔ یہی ان کی خواہش تھی یہی ان کی تمنا تھی ان کی اس آخری خواہش کو جامہ عمل پہنانا اب ہم میں سے ہر ایک مسلمان کا مذہبی فرض ہے۔ آؤ ہم خدا کے حضور میں سر نیاز جھکا کر اس امر کا عہد کریں کہ ہم پاکستان کی ترقی، استحکام، سربلندی اور ظفر مندی کے لیے قائد اعظم کے نقش قدم پر چل کر کسی قربانی سے دریغ نہ کریں گے۔قائد اعظم محمد علی جناح ہم میں موجود نہیں ہوں گے لیکن ان کی روح ہمیشہ ہماری رہنمائی کرتی رہے گی آپ کی ہدایات اور آپ کا جذبہ پاکستانی عوام کے دل و دماغ میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔ اللہ تعالیٰ سے میں دعا کرتا ہوں کہ وہ ان کی مغفرت فرمائے اور پاکستان کو پائندہ اور تابندہ رکھے اور پاکستانی قوم کو ان کی اس امانت کی صحیح طور پر حفاظت اور ترقی دینے کی توفیق ارزانی فرمائے۔ آئیے! ہم عہد کریں کہ ہم مملکت پاکستان کے وفادار بن کر رہیں گے۔ اور اللہ کے احکام پر عمل کرنے کی پوری پوری کوشش کریں گے اور اس مملکت خداداد کو جس مقصد کے لیے حاصل کیا گیا ہے یعنی کہ اس میں قانون خداوندی کا ہم نفاذ کر کے چھوڑیں گے، اس کے لیے کمر بستہ ہوجائیں۔
قائد کی امانت:
آپ کی زندگی کو اگر غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ قائد اعظم ہر طرح سے مسلمانوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم تھے اور ان کے دل میں ایمانی جذبات کے ساتھ ساتھ جذبہ حریت موجزن رہتا تھا۔ طویل جدوجہد کے نتیجے میں پاکستان جیسی خوبصورت اور خود کفیل ریاست اہلیان پاکستان کے سپرد کی۔آپ کے جانے کے بعد پاکستان کے تھکے ہارے، لٹے پٹے، دکھوں کے مارے عوام کسی قائد اعظم کا انتظار کر رہے ہیں۔ قائد اعظم تو لوٹ کر نہیں آنے لیکن ان کے بتائے ہوئے اصول ہمارے مستحکم پاکستان کے ضامن ہیں۔
