دریا کنارے /لقمان اسد
’’ہمارے علاقے میں کام کرنے والے ایجنٹ گاؤں کے درجنوں لڑکوں کو یونان اور اٹلی بھجوا چکے تھے۔ میرا بیٹا کچے ذہن کا تھا جو اُن کی باتوں میں آ گیا اور ہمیں بار بار یہی کہتا تھا کہ اگر آپ نے مجھے یورپ نہیں بھجوانا تو میں گھر چھوڑ دوں گا۔یہ الفاظ ہیں 13اور14دسمبر کو کشتی حادثہ کی نذر ہونے ہونے والے 13سالہ محمد عابد کے والد جاوید اقبال کے جو اب اپنے اُس فیصلے پر بُری طرح پچھتا رہے ہیں جب 13 سالہ بیٹے کی ’ضد‘ کے ہاتھوں مجبور ہو کر انھوں نے غیرقانونی طریقے سے اسے یورپ بھجوانے کا فیصلہ کیا۔‘یونان کشتی حادثے میںچالیس پاکستانی جاں بحق ہوئے، کشتی میں تراسی پاکستانی سوار تھے,لاپتہ پاکستانیوں میں بڑی تعداد کم عمر بچوں کی ہے ،اس حادثہ کی خبر سن کر مجھے افضل حیات کی بیوہ یاد آگئی جس کا خاوند گزشتہ برس 14 جون کو یونان کشتی حادثہ کا شکار ہونے والوں میں سے ایک تھا ۔اس بیوہ کے الفاظ ہیں کہ ’’جس انسان کے ساتھ آپ نے زندگی کے 20 سال گزارے ہوں اور وہ بھی غربت اور کمزوری کے دن جب ہم میاں بیوی ہی ایک دوسرے کا سہارا تھے۔ وہ اچانک حادثاتی موت کا شکار ہو جائے کہ گھر والے تو دور کسی انسان نے اس کی نعش تک نہ دیکھی ہو۔ ایسے میں دل کو صبر دلانا مشکل ہی نہیں ایک ناممکن سی بات ہے۔ لیکن اب ایک سال سے جب کوئی نام و نشاں نظر نہیں آ رہا تو دل نے تسلیم کر لیا ہے کہ وہ اب ہم میں نہیں رہا۔‘
گزشتہ برس بھی جون میں یونان میں ایک کشتی ڈوبی تھی جس میں 350 پاکستانی بھی شامل تھیتب پاکستان میں اس وقت کے وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے اس حادثے میں 281 شہریوں کی ہلاکت کی تصدیق کی تھی۔ 12 پاکستانی زندہ بچ گئے تھے ۔ باقی لاشوں کی شناخت ہی ممکن نہیں ہو سکی تھی۔جس وقت یہ حادثہ ہوا تھا اس کے دو ہفتے بعد عیدالاضحیٰ تھی اور اب اس حادثے کو ڈیڑھ برس مکمل ہو رہا ہے کشتی حادثہ کا شکار ہونے والے افضل حیات کی عمر 45 برس تھی۔ اس نے علاقے کے عام نوجوانوں کی نسبت دیر سے بیرون ملک جانے کا فیصلہ کیا۔ اس سے پہلے وہ محنت مزدوری اور کاشت کاری کرکے اپنا گھر بار چلا رہاتھا ۔
والدین نے ان کی شادی بھی جلد ہی کر دی تھی۔ جب وہ بیرون ملک روانہ ہوا تو وہ پانچ بچوں کا باپ تھا۔ جن میں بڑے بیٹے کی عمر اب 20 سال ہے جبکہ باقی بچوں کی عمریں بالتریب 17، 15، 13 اور آٹھ برس ہیں۔ان کے خاندان نے یہ ڈیڑھ سال امید اور بے یقینی کے بھنور میں ایسے گزارا ہے کہ ایک دن جب دل کو رب کی رضا پر راضی کرتے اگلے ہی دن کوئی جھوٹی خبر ان کی امید کو جگا دیتی جس وجہ سے گھر میں ہمہ وقت اداسی کا ماحول چھایا رہتا ہے۔,افضل کی والدہ آج بھی کہتی ہیں کہ ’ایسا کیسے ممکن ہے کہ اتنے زیادہ لوگ مر جائیں اور ان کی نعشوں کی شناخت نہ ہو۔ یقیناً انھوں نے میرے افضل سمیت بہت سے لوگوں کو پکڑ رکھا ہے۔ کسی نہ کسی دن وہ ان کو چھوڑ کر واپس بھجوا دیں گے۔اس حادثے میں افضل حیات کے علاوہ بھی جان کی بازی ہارنے والوں کے لواحقین کی اکثریت نے اپنے بچوں کی موت کو ذہنی طور پر قبول نہیں کیا۔
13 اور14دسمبر کی شب ہونے والے کشتی حادثہ میں یونانی کوسٹ گارڈ زنے لاپتہ پاکستانیوں کی تلاش کا ریسکیو آپریشن ختم کردیا ہے، جس کے بعد تمام لاپتہ افراد کو مردہ تصورکیا جائے گا۔اور افضل حیات کے لواحقین کی طرح ان کے انتظار میں بھی لواحقین کی آنکھیں سولی پر ٹنگی رہیں گی انسانی اسمگلرز کا طریقہ کار یہ ہے کہ وہ کوسٹ گارڈ اور سرویلینس سسٹم سے بچنے کے لیے بڑے بحری جہازوں کے بجائے چھوٹی کشتیوں کا استعمال کرتے ہیں ۔ 11 سے 12 دسمبر کی شب تارکین وطن کو لیبیا سے تین مختلف کشتیوں میں سوار کیا گیا۔ یہ کشتیاں ڈھائی دن تک سمندر میں رہیں، جن میں سے دو محفوظ رہیں جبکہ ایک حادثے کا شکار ہو گئی۔تاہم متاثرین کی عمریں 15 سے 40 سال کے درمیان تھیں، جن میں زیادہ تر 25 سے 30 سال کے نوجوان شامل تھے۔ کشتی میں 15 سے 16 سال کے تین کم عمر بچے بھی موجود تھے۔ زیادہ تر افراد کا تعلق پنجاب کے ضلع سیالکوٹ، منڈی بہاؤالدین اور گجرات کے علاقوں سے تھا۔سرکاری ذرائع کے مطابق لیبیا میں ابھی بھی کم و بیش 5 ہزار پاکستانی موجود ہیں، یورپ جانے کے خواہشمند یہ افراد مختلف پاکستانی و لیبیا کے ایجنٹوں کے پاس ہیں۔ یہ پاکستانی قانونی طور پر پاکستان سے ویزہ لے کر لیبیا پہنچے اور یورپ جانے کی خواہش نے ان کی جان لے لی لیکن کیا سالِ گزشتہ کی طرح اس حادثہ کے ذمہ داروں پر قانون کی گرفت کسی جائے گی اس کا جواب نہیں میں ہے کیونکہ جون 2023میں ہونے والے حادثہ پر خاندانوں اور رشتہ داروں کی معلومات پر147 انسانی اسمگلرز کی نشاندہی ہوئی جس کی روشنی میں 200 کے قریب مقدمات درج ہوئے‘مگر طاقتور قانون کے کمزور جال کو پیسوں کی طاقت سے توڑنے میں کامیاب ہوگئے لواحقین کے مطابق ایف آئی اے کی جانب سے ہم سے ابتدائی ایام میں صرف ایجنٹ کے بارے میں جاننے کے لیے رابطہ کیا گیا اس کے علاوہ کسی سرکاری ادارے نے کبھی کوئی رابطہ نہیں کیا۔ جبکہ نعشوں کی شناخت کے لیے ڈی این اے سیمپل لئے گئے ۔اور حالیہ حادثہ میں فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) نے کریک ڈاؤن کے نام پر پھالیہ سے مبینہ انسانی اسمگلر محمد حسن کو گرفتار کر لیا ہے۔جبکہ ابھی تک چار مقدمات کا اندراج ہوا ہے