تحریر: مقبول الہی
نشیبی عوام کو کم از کم انسان ہونے کا حق، اس سوال کا جواب 77 ویں برس بھی ندارد ہے عہد جدید میں کسی کو بھی غاروں جنگلوں پہاڑوں میں رہنے والے انسان کو دیکھنے کی چاہت ہو تو اسے دریائے سندھ کی پٹی میں بستے لوگوں کو ایک نظر دیکھ لینا چاہیے زندگی کی کم از کم بنیادی سہولیات سے بھی محروم اور ہر روز دریا سندھ سے زندگی اور موت کی جنگ کرتے نشیبی عوام لیہ کے پسماندہ اور دور افتادہ ہونے کا ثبوت فراہم کر رہے ہیں 15 جولائی سے 15 ستمبر تک کے 60 دنوں پر محیط فلڈ سیزن میں کسی بھی ہفتہ 10 دنوں میں سیلاب تباہی بربادی کی داستان رقم کرتا سمندر میں گم ہو جاتا ہے۔
یہ سوال ایک ڈراؤنا خواب بن کر ہر کسی کے ذہنوں میں کچوکے لگاتا رہتا ہے کہ کیا کبھی نشیبی عوام کے قدموں تلے زمین اور سروں پر سےموجود چھت کے سائے سے محروم نہ بھی ہوں گے، کیا سونا اگلتی زمینیں ،انسانی بستیاں، تاریخ کے اوراق میں گم ہونے کا سلسلہ تھم بھی سکے گا ہر برس 70 کلومیٹر طویل دریائی پٹی میں دریائی کٹاؤ کے سبب بے گھر بے در ہوتی انسانی ابادیاں عظیم المیوں کا شکار رہتی ہیں ریسکیو اور ایمرجنسی صورتحال سے مکینوں کو محفوظ مقامات پر پہنچانے جیسے فرائض سر انجام دیے جاتے ہیں یہ اور بہت کچھ ہنگامی اقدامات اس وقت تک اٹھائے جاتے رہیں گے جب تک ضلعی مشینری، ضلعی سیاسی عوامی قیادت ،سماجی رضاکار تنظیمیں، میڈیا لیہ کے نشیبی عوام کے جان و مال عزت و ابرو روزگار کے تحفظ کے لیے ضلع کا مقدمہ پوری قوت کے ساتھ حکومتی ایوانوں میں پیش/ لڑتے نہیں ہیں دریا کی تباہ کاری مستقل فیچر ہے ہی مگر ریسکیو اور ایمرجنسی انتظامات پر اٹھنے والے اخراجات اسے کہیں زیادہ ہو جاتے ہیں جتنا خرچ سامنے اتا ہے۔
اس وقت بھی تحصیل کروڑ اور لیہ کے مواضعات جھوک حسن خان بیٹ مونگڑ، میں کٹاؤ عروج پر ہے جبکہ نشیبی میگا پراجیکٹ لیہ تونسہ پل تک پہنچنے والی بستی صوبے والی شدید ترین کٹاؤ کی زد میں ہے اس بستی کو اگر کٹاؤ سے نہ روکا گیا تو میگا پراجیکٹ سے استفادہ کے لیے مزید کروڑوں روپے کے اخراجات کرنا پڑیں گے۔ لیہ ضلع بننے کے 40 برسوں بعد بھی ایسی عوام دوست سرکاری مشینری اور قیادت سے محروم ا رہا ہے جسے نشیبی عوام دوست قرار دیا جا سکے۔دریا سندھ کے کٹاؤ/ فلڈ کا نشیبی عوام کے ساتھ وہی تعلق بن چکا ہے جو کسی بھی لو سٹوری کا بنیادی کردار ہوتا جس میں تمام تر نقصان عاشق کے حصے میں اتا ہے یہی تصویریں لیہ ،کروڑ کی مغربی بیلٹ میں دکھائی دیتی ہیں دریا کس کے لیے رحمت کا وسیلہ بنتا ہے تو انہیں چراغ لے کر ڈھونڈنا پڑے گا دریا کن کے لیے تباہی بربادی کا پیغام لے کر ایا ہے یہ پکچرز جمع کر کے کئی کتابیں لکھی جا سکتی ہیں نقل مکانی کے دوران جاگیردار اور مزارعہ مزدور سارے زندگی بچانے کے لیے محفوظ مقامات کا رخ کرتے ہیں اس وقت کسی کو کسی کی نہیں بلکہ ہر کسی کو اپنی اپنی پڑی ہوتی ہے جیسا کہ اج کل کٹاؤ کے شکار مواضعات میں ہو رہا ہے۔
قدرتی افات ہوں یا انسانی الام گڈ گورنس سے پبلک لائف کی مشکلات کو ختم نہیں تو انہیں کم تو کیا ہی جا سکتا ہے مگر ہمارے ہاں کرپشن کمیشن اور ایشوز کو نظر انداز کر کے نان ایشوز کو ترجیح نمبر ون بنا کر عوامی مسائل میں روز بروز اضافہ کیا جا رہا ہے جیسا کہ سندھ کے مسلسل کٹاؤ اور فلڈ کی روک تھام کے لیے اریگیشن ڈیپارٹمنٹ ماڈل سٹڈی کرا کے دریائی کٹاؤ کا مستقل حل تلاش کر سکتا تھا اور اگر کوئی سٹڈی کرائی بھی ہے تو اسے فائلوں سے نکال کر آن گراؤنڈ عملی شکل میں نافذ کیا جاتا مگر ایسا کچھ نہ ہونے کی وجہ سے متاثرین اس بد انتظامی کو قدرتی افت سمجھ کر صبر کے گھونٹ پی کر زندگی کی سانسیں گن رہے ہیں۔
پبلک لیڈرشپ کو اس بیلٹ سے دلچسپی فقط اتنی ہے کہ جتنی ایک امیدوار کو اپنے ووٹر کے ووٹ حاصل کرنے تک ہوتی ہے یہاں کے عوام پولنگ سٹیشن کی زینت، انتخابی مہم کے دوران امیدواروں کے جلسوں کی رونق بننے یا مخالفوں کے خلاف نعرے بازی کے لیے بطور ایندھن استعمال، مگر ان یا ان کے بچوں کے وہ بنیادی حقوق جو ائین و قانون میں دیے گئے ہیں کے کم از کم حق سے بھی محروم ا رہے ہیں یوں یہاں کی عوام نسل در نسل علاقہ میں دوسرے درجے کے شہری کے طور پر زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے جب تعلیم اور روزگار کے مواقع نہ ہوں فصلات کی بہتر اجرت میسر نہ ہو رہی ہو تو زندگی کی گاڑی کو کھینچنے بچوں کے شادی بیاہ دیگر ضروریات کو پورا کرنے کے لیے درکار رقم بھاری شرح سود پر قرض لینے پر مجبور ہیں نشیبی بیلٹ میں جس طرح نشیبی عوام کی زندگیوں سے دریا کھلواڑ کر رہا ہے اسی طرح سود خور عوامی زندگی کو اپنے پنجوں میں جکڑ چکے ہیں اور مکین دریائے سندھ اور سود خوروں کے درمیان فٹبال بنے نظر اتے ہیں۔ کاش فلڈ 2024 نشیبی عوام کی زندگی کا اخری فلڈ ہو جس میں انہیں دکھ درد کی کہانیوں کا کردار بننا پڑے اور اس کے بعد نشیبی عوام کے لیے سکون اور باعزت زندگی کا موقع میسر ا جائے کاش ایسا ہو جائے