تحریر:پروفیسر ڈاکٹر مزمل حسین
وادی سندھ کے ایک بڑے حصے پر سرائیکی وسیب واقع ھے ،اس خطے کی قدیم اور بزرگ زبان سرائیکی ھی ھے جو چاروں صوبوں میں بولی اور سمجھی جاتی ھے۔اس زبان میں یہاں کی تہذیب و ثقافت کے احوال اور بڑا علمی ورثہ موجود ھے۔لوک شعر وادب ھو یا پھر صوفیانہ افکار ؛ تمام اس زبان کو ایک وقار بخشتے ھیں۔زبان،تہذیب و ثقافت ،معدنی وسائل،زراعت ،وائلڈ لائف،لائیوسٹاک اور ھیومن وسائل میں یہ وسیب پورے ملک سے جدا اپنا تشخص رکھتا ھے۔ابادی کے لحاظ سے بھی اس کی نمایاں حثییت ھے۔لیکن اس خطے کو معاشی اور سیاسی دونوں حوالوں سے ھمیشہ محروم رکھا گیا ھے۔جس ھی شعبے کی جانب نگاہ دوڑایں مایوسیاں اور محرومیاں دکھائی دیں گی۔یہاں پر بے جوڑ اضلاع اور ڈویژن دکھائی دیں گے,اسی پس منظر میں ھم۔نے تھل ڈویژن کا تصور دیا تھا جو اب۔لیہ ڈویژن تک ان پہنچا ھے۔اپر پنجاب سے مسلط کی گئی انتظامیہ یہاں کے مسائل اور دکھوں سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتی۔یہاں کے تعلیمی ادارے فیکلیٹیز اور سربراہوں سے خالی پڑے رھتے ھیں،ہسپتالوں میں ڈاکٹرز نہیں ملتے،ارمی میں یہاں کے نوجوانوں کو خال خال کمیشن ملتا ھے بس یہاں کا نوجوان لانس نائیک تک ھی محدود رہتا ھے۔مواصلات کا نظام پس ماندگی کا منظر پیش کرتا نظر اتا ھے۔ایک لمبے عرصے تک بار بار کے مطالبے کے بعد نشتر گھاٹ اور ہیڈ محمد والا بنا۔لیہ تونسہ پل ایک مذاق سے زیادہ نہیں،نہ اس کی ڈائریکشن صحیح ھے اور نہ اس کی تکمیل کے کوئی چانس نظر اتے ھیں۔کبھی بجٹ میں اس کے فنڈز نہیں رکھے جاتے تو کبھی اس کے ٹھیکیدار ادھورا کام چھوڑ کر بھاگ جاتے ہیں ۔یہاں کے اکثر تعمیری منصوبے مہمل ،لایعنی یا غیر منطقی ھوتے ھیں یا پھر سالہاسال ادھورے پڑے رھتے ھیں۔اس کی ایک مثال تو ایم ایم روڈ کی بھی دی جاسکتی ھے۔کام ھوتے ھوتے فتح پور کے قریب درمیان میں ادھورہ چھوڑ دیا گیا تین برس کے بعد اب سنا ھے کہ بقیہ کام کے کوئی ٹینڈر لگے ھیں۔یہ ایک مثال نہیں اس طرح کی سیکڑوں مثالیں اور بھی دی جاسکتیں ھیں ،دریائے سندھ کی تباہ کاریاں ان کے سوا ھیں۔یہاں انڈسٹری نہ ھونے کے برابر ھے جس سے بے روز گاری روزافزوں بڑھ رھی ھے۔یوتھ میں غیریقینی کے احساسات بڑھ رھے ھیں۔پنجاب میں پانچ دہائیوں سے مخصوص مائنڈ سیٹ کی حکومتیں بن رہی ہیں وہ بوجہ سرائیکی وسیب کی جانب اپنی توجہ مبذول نہیں کرتیں،مقتدرہ شعوری طور پر پنجاب میں پی پی پی کی حکومت بننے کے لیے سازشیانہ منصوبہ بندی سے اس کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرتی ا رہی ھے اور بقول ڈاکٹر اشو لال: سرائیکیوں کا اخری مورچہ پاکستان پیپلزپارٹی ھی ھے۔پی پی پی کی عرصہ دراز تک پنجاب کی حکومت سے باہر رہنے سے یہاں کی محرومیاں بڑھی ھیں۔پی پی پی کے اولین عہد میں یہاں کئی جامعات،میڈیکل کالجز ،انڈس ہائی وے اور دیگر شعبوں میں ترقی ھوئی۔سیاسی اور معاشی محرومیوں نے یہاں کی دانش کو اب احتجاج اور مزاحمت کرنے پر مجبور کر دیا ھے اب عام آدمی بھی سراپا احتجاج اور سوال بن رہا ھے،بہت عرصے تک تو سرائیکی ایشو کو لسانی عصبیت کہہ کہہ کر نظر انداز کیا جاتا رہا مگر اب شعور کی سطح بلند ھونے سے پتا چلا کہ یہ مسلہ لسانی نہیں انسانی ھے۔اس خطے کے دکھ کسی اور رخ پر جا سکتے ھیں اگر وادی سندھ کے اس اھم ترین خطے کو مزید نظر انداز کیا گیا تو ھماری معیشت،تہذیب و ثقافت اور سیاست کو مزید نقصان بھی پہنچ سکتا ھے کیونکہ اس خطے کو سیاسی شناخت دینے ھی سے ملک میں سیاسی اور معاشی توازن ا سکتا ھے۔اب بڑے پنجاب کو سمارٹ کرنا ھی پڑے گا،ورنہ یہ سوال گراس روٹ لیول پر ا ھی جائے گا کہ اخر سرائیکی وسیب کے ساتھ "وانجھ”کیوں؟اور جس دن عام آدمی نے اس تلخ حقیقت کا اظہار کرنا شروع کر دیا اسی دن سے حکومتی ایوانوں میں ارتعاش انا شروع ھو جائے گا۔