تحریر:پروفیسر عمران جھنڈیرپروفیسر
ڈاکٹر مزمل حسین اردو ادب کے ان نمایاں محقیقین میں سے ہیں جنہوں نے اپنی علمی بصیرت، تنقیدی مہارت، اور تحقیقی دیانت داری سے ادب کے میدان میں گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔ ان کی شخصیت نہ صرف ایک ماہرِ تعلیم کے طور پر بلکہ ایک محقق اور نقاد کے طور پر بھی منفرد ہے۔ ان کا تدریسی سفر بطور پرنسپل گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج لیہ اور غازی یونیورسٹی، ڈیرہ غازی خان کے صدر شعبہ اردو کی حیثیت سے ان کے علمی مقام کی گواہی دیتا ہے۔ڈاکٹر مزمل حسین کی تحریریں اردو ادب کے سنجیدہ طالب علموں کے لیے علمی رہنمائی فراہم کرتی ہیں۔ ان کی تصانیف میں ادب کے فکری اور جمالیاتی پہلوؤں کی عمیق تجزیہ کاری کے ساتھ ساتھ، تاریخی اور تہذیبی زاویوں کو بھی بخوبی اجاگر کیا گیا ہے۔ خاص طور پر ان کی کتاب "ڈاکٹر مہر عبدالحق: شخصیت اور فن” اردو ادب میں تحقیق کے اعلیٰ معیارات کی مظہر ہے اور علمی دیانت کا ایک درخشاں نمونہ ہے۔ان کا تحقیقی کام سرائیکی وسیب کی تہذیب، ثقافت، اور ادبی ورثے کو اردو کے دائرۂ کار میں شامل کرنے کی ایک سنجیدہ کوشش ہے۔ انہوں نے اپنی تحریروں کے ذریعے سرائیکی خطے کے مسائل، اس کی ثقافتی پہچان، اور ادبی خصوصیات کو نمایاں کیا ہے، جو ان کے گہرے مطالعے اور وسیع فکری افق کی عکاسی کرتا ہے۔ڈاکٹر مزمل حسین کی شخصیت کا سب سے متاثر کن پہلو ان کی محنت، لگن، اور ادب کے لیے گہرے خلوص کا مظاہرہ ہے۔ ان کا کام ان لوگوں کے لیے مشعلِ راہ ہے جو اردو ادب کی خدمت کو اپنا نصب العین بنانا چاہتے ہیں۔ ان کا ادبی سفر، تہذیبی ورثے کو محفوظ رکھنے اور ادب کے معیار کو بلند کرنے کے لیے ان کی کوششیں، ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ڈاکٹر مزمل حسین کی تصنیف "ڈاکٹر مہر عبدالحق: شخصیت اور فن” نہ صرف ایک تحقیقی کارنامہ ہے بلکہ اردو ادب کی تاریخ میں ایک ایسا نایاب چراغ ہے جو علم کے متلاشیوں کے لیے روشنی کا منبع ہے۔ یہ کتاب، جو ۲۰۲۴ء میں اکادمی ادبیات پاکستان کے زیر اہتمام شائع ہوئی، ۱۶۳ صفحات پر محیط ہے، مگر اس کے ہر صفحے پر علمی گہرائی اور فکری بصیرت کی ایک دنیا آباد ہے۔مصنف نے ڈاکٹر مہر عبدالحق کی حیات کو محض واقعات کا تسلسل نہیں بنایا، بلکہ اسے زندگی کے ایک جیتی جاگتی تصویر میں ڈھال دیا ہے۔ ان کے آباء و اجداد کی روایت سے لے کر والدہ کی تربیت کے اثرات تک، ہر پہلو کو اس خوبصورتی سے اجاگر کیا گیا ہے کہ قاری ماضی کے ان نقوش میں کھو سا جاتا ہے۔ ڈاکٹر مہر عبدالحق کے علمی سفر کی پیچیدگیوں ان کے خیالات کی گہرائی کو مصنف نے اس طرح پیش کیا ہے کہ ہر جملہ ان کی شخصیت کا ایک روشن پہلو عیاں کرتا ہے۔یہ کتاب، تحقیق اور تنقید کے میدان میں ایک ایسا عمیق دریا ہے جس کی ہر موج میں علمی شعور کی روشنی اور تحرک ہے۔ "ملتانی زبان اور اس کا اردو سے تعلق” کے حوالے سے ڈاکٹر مہر عبدالحق کے خیالات کو اس فنی چابک دستی سے پیش کیا گیا ہے کہ قاری لسانیات کی باریکیوں اور ملتانی زبان کی تہذیبی گہرائی کو محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ مصنف نے ثابت کیا ہے کہ سرائیکی زبان، اپنی ساخت اور نحو کے اعتبار سے ایک منفرد شناخت رکھتی ہے، جو اس کے جداگانہ ادبی وجود کی دلیل ہے۔کتاب کے دوسرے باب میں خواجہ غلام فرید کے کلام پر تحقیق کو ایک نئی جہت عطا کی گئی ہے۔ "لغاتِ فریدی” اور "پیامِ فرید” جیسے تحقیقی شاہکاروں پر تبصرہ اس علمی احتیاط اور فکری گہرائی سے کیا گیا ہے کہ قاری خواجہ فرید کی شخصیت اور ان کے صوفیانہ افکار کی پیچیدگیوں کو بخوبی سمجھ سکتا ہے۔ خواجہ فرید کی کافیوں کے موضوعاتی تجزیے نے فریدیات کے مطالعے کو نہ صرف ایک نیا رنگ دیا ہے بلکہ اسے تحقیق کے طالب علموں کے لیے ایک مستند حوالہ بنا دیا ہے۔ڈاکٹر مہر عبدالحق کے تراجم کا ذکر کرتے ہوئے، مصنف نے ان کے فن کی تخلیقی صلاحیتوں کو نمایاں کیا ہے۔ چاہے وہ "مئے گلفام” کا سرائیکی ترجمہ ہو یا "جاوید نامہ” کا منظوم بیان، ان کے الفاظ میں سرائیکی زبان کی شیرینی اور تہذیبی مزاج جھلکتا ہے۔ مصنف نے ان کے تراجم کو محض الفاظ کا بدلاؤ نہیں، بلکہ ایک تخلیقی عمل قرار دیا ہے جس میں زبان کی روح سانس لیتی ہے۔”جو ہم پہ گزری” کا تجزیہ کرتے ہوئے مصنف نے اسے سرائیکی وسیب کی اجتماعی تاریخ کا آئینہ قرار دیا ہے۔ یہ کتاب نہ صرف ایک شخص کی کہانی ہے بلکہ اس میں پورے خطے کی تہذیبی، ادبی، اور سیاسی جھلکیاں بھی نمایاں ہیں۔ڈاکٹر مزمل حسین کی تصنیف ادب کے طالب علموں کے لیے ایک ایسا چراغ ہے جو تحقیق، تنقید، اور تخلیقی شعور کے راستوں کو منور کرتا ہے۔ یہ کتاب، ڈاکٹر مہر عبدالحق کی شخصیت کے گہرے نقوش اور ان کے فکری کارناموں کو اس خوبصورتی سے اجاگر کرتی ہے کہ قاری ادب کے اس خوبصورت سفر کا حصہ بننے پر مجبور ہو جاتا ہے۔یہ تصنیف، ادب کے اس سفر میں ایک ایسا سنگِ میل ہے جسے عبور کرنے والا ہر قاری تحقیق اور ادب کے نئے دریچوں سے روشناس ہوتا ہے۔ یہ کتاب صرف ایک علمی اثاثہ نہیں بلکہ اردو اور سرائیکی ادب کے درمیان ایک فکری مکالمہ بھی ہے۔