انجینئر ندیم ممتاز قریشی
پاکستان کی اسٹاک مارکیٹ ریکارڈ سطح تک پہنچ چکی ہے،جو بظاہر اچھی خبر ہوسکتی تھی اگر حقیقی معیشت تباہی کی طرف نہ جا رہی ہوتی۔افراط زر،بے روزگاری اور بلند شرح سود سے عوام کے لئے دو وقت کی روٹی بھی مشکل ہوگئی ہے۔ملک کے قدرتی گیس کے ذخائر تقریباًختم ہوچکے ہیں جس کی وجہ سے ملک کے بیشتر حصوں میں لوڈشیڈنگ ہورہی ہے،نجی سرمایہ بیرون ملک منتقل ہورہا ہے۔یہ کیا ہورہا ہے؟اسٹاک مارکیٹ کو عام طور پر معیشت کی صحت کے پیمانے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔اصول یہ ہے جتنی بہتر معیشت،اتنی ہی بہتر اسٹاک مارکیٹ کی کارکردگی۔پھر پاکستان میں اس کے برعکس کیوں نظر آرہا ہے؟،تاریخ اور اقتصادی نظریات کا جائزہ اس معمے کو واضع کرسکتا ہے۔یہ مظہر جہاں اسٹاک مارکیٹ سطح پر پہنچتی ہے جبکہ وسیع تر معیشت مشکلات کا شکار ہوتی ہے،پاکستان کیلئے منفرد نہیں ہے۔یہ تضاد تاریخی مثالوں سے ثابت ہوتا ہے اور مختلف اقتصادی نظریات سے وضاحت حاصل کرتا ہے۔افراط زر،بلند شرح سود اور بڑھتی ہوئی بے روزگاری کے باوجود اسٹاک مارکیٹ کی ترقی معیشت کی ناہمواری کی عکاسی کرتی ہے۔تاریخ میں کئی ایسی مثالیں موجود ہیں جہاں اسٹاک مارکیٹ کی کارکردگی اور معیشت کی صحت میں واضع فرق دیکھا گیا ہے۔ایک نمایاں مثال 1920ء کی دہائی کے آخر میں امریکہ کی ہے جو عظم کساد بازاری کی طرف لے جاتی ہے۔اسٹاک مارکیٹ غیر معمولی ترقی کا سامنا کرتی ہے،لیکن یہ خوشی بنیادی معیشت کی کمزوریوں کو چھپاتی ہے جیسے کہ کم ہوتی زرعی اجناس کی قیمتیں،بڑھتی ہوئی آمدنی کی ناہمواری اور کمزور بینکاری نظام۔جب 1929ء میں اسٹاک مارکیٹ کریش ہوتی ہے تو یہ دولت کو ختم کردیتی ہے اور موجودہ معیشت کی کمزوریوں کو مزید بڑھا دیتی ہے۔اسی طرح کے نمونے 2008ء کے مالیاتی بحران سے پہلے کے دور میں بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔عالمی اسٹاک مارکیٹس بلند ہوتی ہیں لیکن حقیقی معیشت میں مشکلات کے نشانات موجود ہوتے ہیں جیسے کہ بڑھتا ہوا گھریلو قرض اور ہاؤسنگ مارکیٹ کا بیل۔
مختلف اقتصادی نظریات اس فرق کی وضاحت کرتے ہیں۔مانیٹری پالیسی اور لیکویڈیٹی:معاشی بحران کے ردعمل میں مرکزی بینک شرح سود کم کرتے ہیں اور مالیاتی نظام میں لیکویڈیٹی شامل کرتے ہیں جس سے اسٹاک کی قیمتیں بڑھ سکتی ہیں اور سرمایہ کار مستقبل کے معاشی حالات کی توقعات کی بنیاد پر فیصلے کرتے ہیں جو اسٹاک کی قیمتوں میں ببل بنا سکتے ہیں۔خوشحال افراد اور ادارہ جاتی سرمایہ کار اقتصادی مشکلات کے باوجود سرمایہ کاری کے مواقع حاصل کرسکتے ہیں جبکہ وسیع تر عوام ان فوائد سے محروم رہتے ہیں۔اقتصادی مشکلات میں کمپنیاں اخراجات کم کرکے منافع کو برقرار رکھتی ہیں جس سے اسٹاک کی قیمتیں اور بے روزگاری بڑھتی ہے۔غیر ملکی سرمایہ کاروں کی سرمایہ کاری بھی اسٹاک کی قیمتوں کو بڑھا سکتی ہے اور کچھ شعبے وسیع تر اقتصادی چیلنجز کے باوجود اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرسکتے ہیں۔بلند شرح سود غیر ملکی سرمایہ کاروں کو راغب کرسکتی ہے جس سے اسٹاک مارکیٹ کو فروغ ملتا ہے۔ایک چھوٹا طبقہ جس کے پاس زیادہ اسٹاک ہوتا ہے،مارکیٹ کی قیمتوں کو بڑھا سکتا ہے جبکہ وسیع تر عوام اقتصادی عدم مساوات کا شکار رہتے ہیں۔
پاکستان سٹاک مارکیٹ میں لسٹڈ کمپنیوں کی تعداد لگ بھگ 650 ہے اِن تمام کمپنیوں کے حصص کی مارکیٹ میں خرید و فروخت ہوتی ہے اور سٹاک مارکیٹ کا بنچ مارک کے ایس ای 100 انڈیکس مارکیٹ کی سو بڑی کمپنیوں پر مشتمل ہے جن کے حصص کی قیمتوں میں رد و بدل کی بنیاد پر اس انڈیکس میں اُتار چڑھاؤ ہوتا ہے۔ سادہ الفاظ میں بات کی جائے تو کے ایس ای 100 انڈیکس کے ایک لاکھ کی سطح عبور کرنے کی وجہ ان کمپنیوں کے حصص کی قیمت میں ہونے والا اضافہ ہے ورنہ سٹاک مارکیٹ میں جو 3 لاکھ 50ہزار کے لگ بھگ سرمایہ کار کام کررہے وہ پاکستان کی 25 کروڑ آبادی کے لحاظ سے بہت چھوٹی انویسٹر بیس ہے چنانچہ اسی لیے سٹاک مارکیٹ میں تیزی عام پاکستانی کے لیے معاشی طور پر کوئی اہمیت نہیں رکھتی کیونکہ جب 100 انڈیکس میں اضافہ ہوتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ سٹاک میں رجسٹرڈ کچھ شعبوں جیسے تیل اور گیس نکالنے والی کمپنیوں اور فارماسیوٹیکل سمیت کچھ کمپنیوں کے حصص کے کاروبار میں اضافہ ہوتا ہے اور ایسی صورت میں صرف ان ہی افراد کو فائدہ ہوتا ہے، جو ان شعبوں میں سرمایہ کاری کرتے ہیں دیگر چھوٹی کمپنیوں کے حصص رکھنے والے افراد کو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا مگر اس کے باوجود حکومت اسٹاک ایکسچینج میں تیزی کے رجحان کو ملکی معیشت میں بہتری اور مہنگائی میں کمی کا بلا جواز بیانیہ بنا کر سیاسی پوائنٹ سکورنگ میں مصروف ہے کوئی ان سے پوچھے کہ سال 2016-2015 میں تو پاکستان اسٹاک مارکیٹ میں بیرونی سرمایہ کاری 8 ارب ڈالر کے قریب تھی جب کہ اب اس سے کم ہے تب تو ملک کو معاشی مسائل اور قوم کو مہنگائی و بے روزگاری سمیت دیگر مسائل کا سامنا تھا اب بیرونی سرمایہ کاری میں واضع کمی کے باوجود کیسے ملکی معیشت ترقی اور مہنگائی میں کمی ہورہی ہے۔حکومت کو چاہیے کہ وہ ہوا میں تیر چلانے کی بجائے زمینی حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے أگے بڑھے کیونکہ جب تک معیشت ترقی نہیں کرے گی خوشحال مارکیٹ کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا لہذا حکومت کو چاہیے کہ وہ معاشی ترقی اور عوام کو درپیش مسائل کے حل کیلئے عملی اقدامات اٹھائے مارکیٹ خود بخود خوشحالی کی راہ پر گامزن ہوجائے گی
٭٭٭