"
تحریر ؛ ساجد محمود
پاکستان کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی سمجھی جانے والی کپاس آج اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے۔ جنوبی پنجاب، جو کبھی کاٹن بیلٹ کے نام سے جانا جاتا تھا، اب گنے اور چاول کی بے تحاشہ کاشت کے بوجھ تلے اپنی شناخت کھو چکا ہے۔ یہ فصلیں اپنی پانی کی بے پناہ طلب کی وجہ سے نہ صرف کپاس کی کاشت کے لیے زمین کم کر رہی ہیں بلکہ قیمتی آبی ذخائر کو بھی تیزی سے ختم کر رہی ہیں۔
رانا محمد سلیم، ممبر پنجاب اسمبلی، نے اس مسئلے پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ گنے اور چاول کی کاشت قومی معیشت اور آبی وسائل کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ایک کلو چینی کے لیے 2500 تا 3000 لیٹر پانی اور ایک کلو دھان کے لیے 4000 لیٹر پانی درکار ہوتا ہے، جبکہ کپاس کی کاشت کے لیے ایک کلو پر صرف 100 تا 200 لیٹر پانی استعمال ہوتا ہے۔ اس بے ترتیبی کے باعث زیر زمین میٹھے پانی کے ذخائر تیزی سے ختم ہو رہے ہیں، جس سے زرعی معیشت مزید دباؤ کا شکار ہو رہی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ 18ارب ڈالرز کی ٹیکسٹائل ایکسپورٹ کے مقابلے میں صرف 4 ارب ڈالر کی چاول کی برآمد، وہ بھی 400 ارب روپے کے زیر زمین میٹھے پانی کی قیمت پر، ہمارے زرعی نظام کی ناکامی کو ظاہر کرتی ہے
یاد رہے گزشتہ ہفتے اسپیکر پنجاب اسمبلی محمد احمد خان نے بھی اس مسئلے پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ انہوں نے گنے اور چاول کی کاشت کو کپاس کی بربادی کی ایک بڑی وجہ قرار دیا اور اس بات پر زور دیا کہ کاٹن بیلٹ میں ان فصلوں کی کاشت پر پابندی لگانا ضروری ہے۔
یہ ضروری ہے کہ کپاس کی بحالی کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں، جن میں امدادی قیمت کا اعلان، امپورٹڈ کاٹن پر پابندی، اور تحقیق و ترقی کے لیے سرمایہ کاری شامل ہو۔ یہ اقدامات نہ صرف ملکی معیشت کو سہارا دیں گے بلکہ آبی وسائل اور کسانوں کے لیے امید کی نئی راہیں بھی کھولیں گے۔