تحریر:عبدالرحمن فریدی
12 ربیع الاول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کو منانے کا اصل مقصد ان کی تعلیمات پر عمل کرنا اور ان کی سنت کو زندہ رکھنا ہے۔ اس حوالے سے اسلامی تعلیمات اور علما کی رہنمائی کے مطابق کچھ اہم باتیں پیش خدمت کرنا چاہتا ہوں ،نماز اور درود و سلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنا ایک عظیم عبادت ہے۔ ولادت کے موقع پر خصوصی طور پر کثرت سے درود و سلام پڑھنا چاہے. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور ان کی تعلیمات کا مطالعہ کریں اور ان سے رہنمائی حاصل کریں۔سیرت کی محافل منعقد کریں جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق، طرزِ زندگی اور دعوت کو سمجھا جائے اور اس پر گفتگو ہو۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ دوسروں کی مدد کرنے اور خدمت خلق پر زور دیا۔ اس موقع پر غریبوں اور ضرورت مندوں کی مدد کریں اور فلاحی کاموں میں حصہ لیں۔اس موقع کو اپنے اعمال کی اصلاح کے لیے استعمال کریں۔ گناہوں سے توبہ کریں اور اللہ کے نزدیک ہونے کی کوشش کریں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی روشنی میں بدعات سے اجتناب کریں اور سادہ طریقے سے ان کی یاد کو منائیں۔ ایسے طریقے اپنانے سے گریز کریں جو دین میں اضافہ یا تبدیلی کی صورت اختیار کرلیں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو دوسروں تک پہنچانے کا عمل جاری رکھیں۔ اسلامی تعلیمات کو دوسروں تک پہنچانے کا ذریعہ بنیں۔اس کا اصل مقصد یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کو صرف ایک دن کے لیے نہیں بلکہ زندگی بھر ان کی تعلیمات پر عمل کرنے کا ذریعہ بنایا جائے۔
12 ربیع الاول کو منانے کے حوالے سے علماء کرام میں مختلف آراء پائی جاتی ہیں، اور اس موضوع پر اسلامی تاریخ، فقہ اور مختلف مکاتب فکر کی روشنی میں تفصیل سے بات کی جا سکتی ہے. کچھ علماء اور مکاتب فکر 12 ربیع الاول کو ولادتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دن کے طور پر مناتے ہیں اور اس موقع پر محافل میلاد کا انعقاد کرتے ہیں۔ ان کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی خوشی منانا ایمان کی علامت ہے اور ان کی محبت کا اظہار ہے۔یہ محافل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور اخلاق کو بیان کرنے کا ذریعہ بنتی ہیں، جو لوگوں کو ان کی تعلیمات پر عمل کرنے کی ترغیب دیتی ہیں۔ 12 ربیع الاول منانے کی مخالفت میں بعض علماء اس بات پر زور دیتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ کرام نے اس دن کو منانے کا حکم نہیں دیا، اور یہ عمل بعد میں مسلمانوں میں شروع ہوا۔اسلامی تعلیمات کے مطابق دین میں کسی نئی چیز کو شامل کرنا بدعت شمار ہوتا ہے، اور میلاد منانا چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہ کے دور میں نہیں تھا، اس لیے یہ دین میں اضافہ کے مترادف ہے۔کچھ علماء اعتدال کا راستہ اختیار کرتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی 12 ربیع الاول کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے حوالے سے خوشی کا اظہار کرتا ہے، تو وہ اس دن کو محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اظہار کے طور پر دیکھتا ہے، بشرطیکہ یہ عمل اسلامی حدود میں ہو اور اس میں بدعات شامل نہ ہوں۔اصل مقصد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کو زندہ کرنا اور ان پر عمل کرنا ہے، اور اگر کوئی شخص اس موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو یاد کرتا ہے تو یہ قابل تحسین عمل ہے، 12ربیع الاول کو منانے یا نہ منانے کا فیصلہ افراد کی اپنی تفہیم اور علماء کی رہنمائی کے مطابق ہوتا ہے۔عید میلاد النبی ﷺ منانے کے حوالے سے مسلمانوں میں مختلف آراء ہیں۔اگر 12 ربیع الاول کے دن کےمعاملہ پر بات کی جائے تو تاریخی طور پر یہ دن نبی کریم ﷺ کی پیدائش اور وفات دونوں سے منسوب کیا جاتا ہے۔ زیادہ تر مؤرخین کے مطابق نبی کریم ﷺ کی ولادت باسعادت 12 ربیع الاول کو ہوئی تھی ۔اہم بات یہ ہے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کو اپنی زندگی میں عمل کے ذریعے ظاہر کریں اور ان کی سیرت کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں۔