تحریر۔ (تغیر) مبشر نور کمیانہ
سرخی نمبر 1۔
مذہب اسلام میں سال بعد 30 دن کے روزے رکھے جاتے ہیں۔ یہ روزے مسلمانوں پر فرض ہیں۔ ان روزوں کا مقصد تزکیہ نفس اور تقوی و پرہیز گاری ہے۔
۔۔۔
سرخی نمبر 2۔
برازیل (جنوبی امریکہ) میں وہ لوگ جو ’’paje‘‘ (عالم اور استاد) بننے کی خواہش رکھتے انہیں دو سال تک تنہائی میں رو کر روزے رکھنے پڑتے ہیں۔
۔۔۔
سرخی نمبر 3۔
امریکن انڈین ’ریڈ انڈین‘ جنہیں امریکہ کے قدیم اور اصلی باشندے سمجھا جاتا ہے۔ ان کے مختلف قبائل کے ہاں بھی روزے کی روایت پائی جاتی ہے۔
۔۔۔
۔۔۔
۔۔۔
پوری دنیا میں مختلف مذاہب اور مختلف اقوام میں روزے و عبادت کے مختلف طریقے ملتے ہیں۔ ان مذاہب کے علاوہ دنیا میں بعض چھوٹے علاقائی مذاہب بھی رائج ہیں پہلے انکا تذکرہ کرتے ہیں۔ اس کے بعد ان مذاہب کو دیکھیں گے جن کو الہامی مذاہب کہا جاتا ہے۔ مسلم معاشرے کے روزے کس طرح ہوتے ہیں اور دوسرے مذاہب کے روزے کیسے اور کیوں رکھے جاتے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں۔
رومی تہذیب کے بعض مذاہب کو (Mystery Religious) میں شمار کیا جاتا ہے۔ انہیں ماننے والوں کا عقیدہ ہے کہ دیوی دیوتاؤں کی قربت حاصل کرنے یا ان سے دانائی پانے کے لیے روزے کا عمل بہت مفید ہے۔ ان مذاہب میں داخل ہونے والے کے لیے روزے رکھنا ضروری ہے۔
سیرس کی رومی مذہبی رسوم میں بھی روزہ اہم جزو ہے۔ وہ 23 مارچ کو ایک روزہ رکھتے ہیں اور اس سے اگلے دن ایک عظیم تہوار مناتے ہیں۔ قدیم رومیوں میں بادشاہ اور سلاطین خود بھی روزے رکھتے ہیں۔ ان شاہان روم کے روزوں کے دن مقرر تھے۔
قدیم یونان علم و فلسفہ کا گھر تھا۔ ان کے ہاں بھی روزہ ایک مذہبی عمل کے طور پر پایا جاتا ہے۔ رومیوں کی طرح یونان میں ایسے لوگ ہیں جن کا مذہب (Mystery Religious) میں شمار کیا جاتا ہے۔ ان کا بھی عقیدہ ہے کہ دیوی دیوتاؤں کی قربت حاصل کرنے اور بصیرت پانے کے لیے روزہ ایک بہترین معاون ثابت ہوتا ہے۔
چنانچہ تمام غذاؤں یا کچھ غذاؤں کا پرہیز کرنا پڑتا ہے۔ قدیم یونانیوں کے ہاں یہ دستور تھا کہ وہ قربانی سے قبل روزہ رکھا کرتے تھے۔ وہ عبادت اور توبہ کے لیے بھی روزہ رکھتے تھے۔ اسی طرح کسی کی وفات پر بھی روزہ رکھنے کا رواج ان میں پایا جاتا تھا۔
(اکارا) کا غار جس کے اندر پائے جانے والے بخارات میں طبی فوائد پائے جاتے ہیں۔ اسے انہوں نے ’دارالاستخارا‘ کا نام دے رکھا تھا کہ القا پانے کی اس جگہ روزے رکھنے سے آدمی کو الہامی مشاہدات ہوتے ہیں۔
فیثا غورثی مکتب فکر میں روزہ، تقوی اور پرہیزگاری اختیار کرنے کی ایک شکل تھی۔ ان کا یہ عقیدہ تھا کہ ابتدا انسانیت کامل تھی۔ گناہ کی آمیزش سے اس کی یہ پرہیزگاری باقی نہ رہی۔ اب روزے رکھنے اور دوسری زہدانہ ریاضتیں کرنے سے اس کی وہ پہلی پرہیزگاری بحال ہو سکتی ہے۔ فیثا غورث کا اپنا طریقہ یہ تھا کہ مسلسل چالیس روزے رکھا کرتا تھا۔ چنانچہ یونانیوں میں بھی دوسری اقوام کی طرح روزہ ایک اہم مذہبی فریضہ سمجھا جاتا ہے۔
قدیم مصری تہذیب میں بھی یونان کی طرح گناہوں سے توبہ کرنے اور خدا کے عذاب سے بچنے کے لیے روزے رکھے جاتے تھے۔ توبہ کے ان روزوں کے لیے باقاعدہ دن مقرر کیے گئے تھے۔ ان روزوں کے دوران میں ہر طرح کی آسائشیں ممنوع تھیں۔ یونان کی طرح مصریوں میں بھی کسی کی وفات پر روزہ رکھنے کا رواج پایا جاتا تھا۔ چنانچہ بادشاہوں کی وفات پر عوام روزہ رکھا کرتے تھے اور قربانی سے قبل روزہ رکھنے کا بھی رواج تھا۔
امریکن انڈین ’ریڈ انڈین‘ جنہیں امریکہ کے قدیم اور اصلی باشندے سمجھا جاتا ہے۔ ان کے مختلف قبائل کے ہاں بھی روزے کی روایت پائی جاتی ہے۔ ان قبائل میں یہ عقیدہ راسخ تھا۔ روخ اکبر (Great Spirit) سے رہنمائی حاصل کرنے کے لیے روزہ بہت موثر ذریعہ ہے۔
قدیم امریکن انڈین تہذیب میں جو شخص مذہبی عالم بننے کا قصد کر لیتا تو اس کی تربیت کا ایک اہم عنصر روزہ ہوتا تھا۔ ان کے ہاں خوابوں کے ذریعے سے روحوں کے پیغامات اور علم غٰیب حاصل کرنے کے لیے بھی روزے رکھے جاتے تھے۔ شکاری، شکار کے لیے نکلنے سے پہلے روزے رکھتا پھر شکار پر جاتا تھا۔ شکاری اس وقت تک روزے رکھتا چلا جاتا تھا جب تک اسے باپ بننے کی خواہش پوری ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں خواب دکھائی نہ دیتا۔ انکا یہ عقیدہ تھا کہ آدمی کا روزہ جتنا سخت ہو گا اتنے ہی اس کو واضح خواب دکھائی دیں گے۔ ان کا عقیدہ تھا کہ سخت روزے سے خدا کو مجبور کیا جا سکتا ہے کہ وہ آدمی کی مرادیں پوری کر دے۔
(کولمبیا) کے انڈین قبائل خدا کی مدد حاصل کرنے کے لیے کئی روز تک روزے کی حالت میں خدا سے معافی مانگنے اور مدد کی درخواست کرتے تھے۔ برٹش کولمبیا (شمالی امریکہ) جنازے کے موقع پر
ہونے والے کھانے کے بعد چار دن کے لیے روزے رکھتے تھے۔
میکسیکو کے باشندوں میں بھی توبہ کرنے اور قلب (باطن) کو پاک کرنے کے لیے روزے رکھے جاتے تھے۔ مختلف مواقع پر انکی مختلف مدت ہوتی تھی یعنی ایک دن کا روزہ بھی ہوتا تھا اور کئی کئی دنوں کے روزے بھی ہوتے تھے۔ یہ روزے قبیلے کا کبھی کوئی ایک فرد رکھتا اور کبھی پورا قبیلہ ہی روزہ رکھتا تھا۔ قوم پر نازل ہونے والی آفات سے بچنے کے لیے بڑا مذہبی پیشوا روزہ رکھ کر سختیاں جھیلتا اور خدا سے دعائیں کرتا رہتا۔ (Cheriokee Indians) کا یہ عقیدہ تھا کہ عقاب کا شکار کرنے سے پہلے ایک طویل عرصے تک روزہ اور دعا ضروری ہے کیونکہ روزہ رکھنے سے جسم گناہوں سے پاک ہو کر مقابلے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔
بحرالکاہل کے جنوب مغربی حصے میں کئی جزیرے پائے جاتے ہیں۔ جن میں (نیو گنی، فیجی، سالم) شامل ہیں۔ یہاں بھی روزے کا رواج پایا جاتا ہے۔ نیوگنی کے قبائل میں جزوی روزے رکھنے کے لیے کھانے کی متعدد اشیاء سے پرہیز کیا جاتا ہے۔ ان کے ہاں روزے کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ آدمی اپنی پسند کی چیزیں کچھ عرصہ کے لیے ترک کر دیتا ہے۔ (Roro) ’’رورو‘‘زبان بولنے قبا ئل میں (Seclusion Period) کے اختتام پر ایک دن کا روزہ رکھنے کا رواج ہے۔
(فیجی) میں عقاب ایک مقدس پرندہ مانا جاتا ہے۔ چنانچہ اس کا شکار کرنے سے قبل شکاری ایک طویل عرصے تک روزے رکھتا اور دعائیں کرتا ہے۔ (Teligintis) قبیلے کے لوگ دوسرے جنم پر یقین رکھتے ہیں چنانچہ ان کے ہاں بعض اموات پر لڑکیاں اس لیے روزے رکھتی ہیں کہ یہ روح دوبارہ ان کے جسم سے جنم لے۔
بابل اور نینوا کی تہذیب قدیم تہذیبوں میں سے تھیں۔ یہاں آشوری قوم آباد تھی۔ ان کی طرف (حضرت یونس علیہ السلام) کی بعثت ہوئی تھی۔ آشوریوں کے ہاں بھی روزے کا رواج ملتا ہے۔ یہ لوگ روزے کو خدا کے عذاب سے بچنے اور کفارے کا ذریعہ سمجھتے تھے۔ یہ لوگ آلام و آفات کے دنوں میں بھی روزے رکھا کرتے تھے۔
براعظم آسٹریلیا میں جو قبائل آباد ہیں ان سے بعض کے نزدیک عظیم قوتوں یعنی دیوتا سے اجر حاصل کرنے کے لیے روزہ ایک پسندیدہ عمل ہے۔ وسطی آسٹریلوی دیوتاؤں سے مدد اور پیداوار میں برکت کے لیے روزہ رکھا جاتا ہے۔
نیو ساوتھ ویلز قبائل میں ’’بورا‘‘ نامی ایک تقریب منعقد کی جاتی ہے جس میں نوعمر لڑکوں کو روزہ رکھوایا جاتا ہے۔ یہ روزہ 2 دن پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس میں خوراک تو ممنوع ہوتی ہے لیکن تھوڑا بہت پانی پینے کی اجازت ہوتی ہے۔ ان کے ہاں اس روزے کا مقصد لڑکوں کی اخلاقی اور معاشرتی تربیت ہے۔
متعدد افریقی قبائل کے ہاں بھی روزہ موجود ہے۔ یہ قبائل عموماََ اموات پر روزہ رکھتے ہیں۔ یوروبا قبیلے میں بیوہ اور اس کی بیٹی کو چوبیس گھنٹوں کے لیے ایک کمرے میں بند کر دیا جاتا ہے۔ ان کا کھانا،پینا روک دیا جاتا ہے۔ گویا انہیں جبراََ روزہ رکھوایا جاتا ہے۔ گولڈ کوسٹ کے قبائل میں موت کے طویل عرصہ تک سخت روزے رکھے جاتے ہیں ۔ جنوبی افریقہ کے ’’زولو‘‘ قبیلے کے لوگ خدائی الہام پانے کے لیے روزے رکھتے ہیں۔
برازیل (جنوبی امریکہ) میں وہ لوگ جو ’’paje‘‘ (عالم اور استاد) بننے کی خواہش رکھتے انہیں دو سال تک تنہائی میں رو کر روزے رکھنے پڑتے ہیں۔ روس کے علاقے سائبیریا میں اسکیموز کے ہاں روزہ ایک خاص عبادت ہے۔ جو اسکیمو نوجوان (Angekok) ارواح سے تعلق قائم کرنا چاہتا تو وہ مسلسل روزے رکھتا ہے۔
قدیم ایران میں روزہ عام نہیں تھا لیکن تین راتوں تک ماتمی روزہ رکھا جاتا تھا۔ پارسی مذہب میں عام پیرو روزے نہیں رکھتے تھے مگر مذہبی پیشواؤں کے لیے روزہ ضروری تھا۔ قدیم جاپانی تہذیب میں روزے کا تصور ملتا ہے۔
جاپان میں وفات کے موقع پر جزوی روزہ رکھنے کا رواج تھا۔ سبزیوں پر مشتمل ایک بہت ہی سستی غذا کھائی جاتی تھی۔ والدین اولاد کی وفات پر پچاس دن تک یہ خوراک استعمال کرتے تھے۔
کوریا میں مرنے والے کے رشتہ دار ایک دن اور اس کے بیٹے اور پوتے تین دن کے روزے رکھتے ہیں۔ چین کے پرانے مذاہب میں روزوں کا رواج تھا۔ اس کے علاوہ ’’کنفیوشزم‘‘ اور’’تاؤ اِزم‘‘ جنہیں اصلاحی تحریکوں کا نام دے سکتے ہیں ان میں بھی روزوں کو اہمیت دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ چینیوں کے ہاں ماتمی روزوں کا تصور بھی ملتا ہے۔ یہ روزے مرنے والے آدمی کے رشتے دار رکھتے ہیں ۔
ہندوستان میں بہت سے مذاہب ایسے ہیں جن میں ہندو، بدھ مت، چین مت، پارسی، مُسلم اور مسیح وغیرہ شامل ہیں۔ ان سب میں روزے کا تصور ہے۔ ہندو مت تو روزوں، دعوتوں، تہواروں کا مذہب کہلاتے ہیں۔ جن میں برت (روزے) کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ ان روزوں میں تزکیہ نفس،کفارے، منت شگن، ماتمی اور کئی اقسام کے روزے ہیں۔
مذہب اسلام میں سال بعد 30 دن کے روزے رکھے جاتے ہیں۔ یہ روزے اللہ تعالی کی طرف سے مسلمانوں پر فرض ہیں۔ ان روزوں کا مقصد تزکیہ نفس اور تقوی و پرہیز گاری ہے۔ خود کو گناہوں سے بچانا، جہنم کی آگ سے پناہ مانگنا، بھوک پیاس برداشت کر کے خود میں صبر و تحمل پیدا کرنا اور اللہ کے قریب ہونا۔ یہ ایک مہینہ تمام مسلمان دنیا کے کھیل کود، فضول کام چھوڑ کر مساجد میں اور اپنے گھروں میں عبادت و ریاضت کرتے ہیں۔
مسلمان اِس ماہ رمضان میں *اعتکاف” بھی کرتے ہیں۔ اعتکاف ایک اسلامی عبادت ہے جو رمضان المبارک کا آخری عشرہ (10 دن) مسجد میں رہ کر کی جاتی ہے۔ اعتکاف کا مطلب ہے ”الگ تھلگ ہونا” یا ”کسی چیز میں مشغول ہونا”۔ یہ عبادت مسلمان مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے ہے۔ لیکن مردوں کا اعتکاف مسجد میں ہوتا ہے جبکہ عورتوں کا اعتکاف گھر میں ایک الگ کمرہ میں ہوتا ہے۔
اعتکاف کا مقصد دنیاوی مشغولیات سے دور ہو کر اللہ کی عبادت میں مشغول ہونا، قرآن پاک کی تلاوت، نماز، ذکر اور دعا میں وقت گزارنا ہے۔ اعتکاف کرنے والے شخص کو مسجد سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں ہوتی سوائے انسانی ضروریات مثلاً غسل خانہ جانے، کھانا کھانے یا کسی شدید ضرورت کے لیے۔
یہ 30 روزے رکھنے کے بعد تمام مسلمان ایک عظیم مذہبی تہوار (عید الفطر) چاند کی یکم شوال کو مناتے ہیں جسے میٹھی عید بھی کہا جاتا ہے۔ اس دن سبھی مسلمان مرد و خواتین اپنی قریبی مساجد میں جا کر 2 رکعت نماز واجب ادا کرتے ہیں اور اپنے اللہ کے حضور اپنے گناہوں کی معافی طلب کرتے ہیں اور رو کر اپنے پچھلے گناہوں کی معافی طلب کرتے ہیں۔
پھر تمام مسلمان اپنے دکھ غم پریشانیاں بُھلا کر چھوٹے بڑے بچے بوڑھے سبھی افراد بڑی محبت سے ایک دوسرے کے گلے ملتے ہیں اور اپنے اپنے گھروں کو چل نکلتے ہیں پھر اپنے گھر میں سبھی افراد ایک دوسرے کو ”عید مبارک” کہہ کر گلے ملتے ہیں۔ پھر ہر گھر میں مختلف النوع اقسام کے کھانے پکائے جاتے ہیں اور اپنے گلی محلے اور رشتہ داروں میں بھی کھانے بانٹیجاتے ہیں۔
یہ عید 3 دن تک منائی جاتی ہے۔ اس موقع پر غریب اور ضرورتمند افراد کو ان کی ضرویات زندگی کی اشیاء خرید کر بطور تحفہ دیا جاتا ہے۔ اس طرح مسلم معاشرے میں سچی خوشیاں بانٹی جاتی ہیں۔ یہ ہیں مسلم معاشرے کے روزے اور عید کی خوشیاں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالی اِس ماہ رمضان کے طفیل اُمت مسلمہ میں اتحاد کرے۔ تمام مسلمانوں کو آپس میں امن و آتشی سے رہنے کی توفیق عطا فرما۔ اور اہل اسلام پر اپنا خاص کرم اور رحم فرما۔ آمین