تحریر ؛ ساجد محمود
پاکستان میں کپاس کی فصل کا نوحہ ایک دُکھ بھری کہانی ہے جو ہر سال ہمارے کسانوں کے خوابوں کو خاک میں ملا رہی ہے۔ ایک وقت تھا جب پاکستان کی کپاس دنیا بھر میں پہچانی جاتی تھی، اور ہماری معیشت کا ایک اہم ستون سمجھی جاتی تھی، مگر آج حالات اس کے بالکل برعکس ہیں۔ کپاس کی پیداوار اور زیرِ کاشت رقبے میں مسلسل گراوٹ نے زرعی شعبے میں بحران کی سی کیفیت پیدا کر دی ہے۔ کپاس کی پیداوار میں کمی کی سب سے بڑی وجہ مناسب پالیسیز اور حکومتی سرپرستی کا فقدان ہے۔ ملک میں بڑھتے ہوئے زرعی اخراجات، بیج کی کمی، زرعی ادویات کے مہنگے دام اور کسانوں کو جدید ٹیکنالوجی کی فراہمی میں عدم دستیابی جیسے مسائل نے بھی پیداوار کو متاثر کیا ہے۔ پاکستانی کسانوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ انہیں محنت کے باوجود ان کی محنت کا صحیح صلہ نہیں مل پاتا۔ کپاس کی پیداوار میں کمی کے باوجود ٹیکسٹائل انڈسٹری نے اس اہم فصل کی طرف توجہ دینے کے بجائے، اپنی ضروریات پوری کرنے کے لئے غیر ملکی کپاس پر انحصار بڑھا لیا ہے۔ اس عدم توجہی کی وجہ سے کپاس کی پیداوار کو نقصان پہنچا ہے اور کپاس کے محققین کے لئے تحقیق اور ترقی کے مواقع محدود ہو چکے ہیں۔ آج، جب دنیا موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی مسائل سے نبرد آزما ہے، ہمارے پاس کپاس کے لئے ایک منظم نظام کا فقدان ہے جو ان چیلنجز کا سامنا کر سکے۔ اس صورتحال کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہمارے کسان اور محققین بے یار و مددگار رہ گئے ہیں۔ ریسرچ کے لیے کوئی فنڈز مختص نہیں۔ اگر اب بھی ہم نے کپاس کے شعبے کو بچانے کے لئے فوری اور مؤثر اقدامات نہ کئے، تو یہ فصل اور کسانوں کے ساتھ جڑا ہوا خواب ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے گا۔