تحریر: ثاقب عبداللہ نظامی
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات پیدا فرمایا ہے اور اسے بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے ۔درخت ان عظیم نعمتوں میں سے ایک ہیں ۔جس طرح ایک عورت کو سجنے سنورنے کے لیے زیورات کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح درخت بھی ہماری ماں دھرتی کے زیورات ہیں جو اس کی خوبصورتی میں اضافہ کرتے ہیں اور اسے دلکش اور حسین بناتے ہیں۔زمین کو بھی زیورات یعنی درختوں کی ضرورت ہوتی ہے ۔دراصل درخت ہی زمین پر وہ واحد شے ہیں جن کی وجہ سے ہماری ماں دھرتی کو گرین پلینیٹ کا خطاب دیا گیا ہے ۔درختوں کے بغیر زمین پر زندگی نا ممکن ہے۔درخت انسان کے حقیقی محسن ہیں یہ ہمیں پھل،پھول،سایہ،ادویات،گرمی کی شدت میں کمی اور سورج سے آنے والی الٹرا وائلٹ شعاعیں جو کینسر جیسے موذی مرض کا باعث بنتی ہیں سے بچاتے ہیں ۔اسی طرح درخت نا صرف انسانوں بلکہ چرند پرند ،
حیوانات ،حشرات وغیرہ کے بھی محسن ہیں۔ ایک بڑا درخت تقریباً پینتیس انسانوں کو آکسیجن مہیا کرتا ہے۔ لیکن بنی نوع انسان اپنی ضروریات کی تکمیل کی خاطر انہیں وحشی درندوں کی طرح کاٹتا ہے۔درصل انسان اتنا خود غرض ہے کہ وہ وحشی درندوں کی طرح اپنے ہی محسن کا سر قلم کر دیتا ہے . پروین شاکر صاحبہ اس درد ناک کیفیت کو کچھ اس طرح سے بیان کرتی ہیں کہ:
اس بار جو ایندھن کے لیے کٹ کے گرا ہے
چڑیوں کو بڑا پیار تھا اس بوڑھے شجر سے
درختوں پر کتنے ہی پرندوں اور دوسرے جانوروں کے آشیانے ہوتے ہیں اور جب ایک درخت کاٹ دیا جاتا ہے تو ان کے گھر تباہ وبرباد ہو جاتے ہیں ۔ایک سروے کے مطابق ایک ملک کے تقریباً بیس فی صد رقبے پر جنگلات ہونے چاہئیں تب جا کر اس ملک کا درجہ حرارت معتدل ہو گا لیکن بد قسمتی سے ہمارے ملک پاکستان کےصرف تین فی صد سے بھی کم رقبے پر جنگلات ہیں۔اسی وجہ سے پاکستان کے گرم علاقوں میں میں جون اور جولائی کے مہینوں میں ناقابل برداشت حد تک گرمی ہوتی ہے اور درجہ حرارت تقریباً
50 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے۔ اگر پاکستان میں جنگلات کی شرح یہی رہی تو آنے والے دس سالوں میں ہمارے ملک کے یہ علاقے رہنے کے قابل نہیں رہیں گے ۔ہمارے ملک میں روانہ سر عام درخت کاٹ دیے جاتے ہیں اور حکومت خاموش رہتی ہے۔حکومت کو چاہیے کہ درختوں کی کٹائی پر مکمل پابندی عائد کر دی جائےاور درختوں کے متعلق آگاہی مہم کا آغاز کرنا چاہیے اگر ہم خود کو اور اپنی آئندہ نسلوں کو ان مسائل سے بچانا چاہتے ہیں تو ہمیں زیادہ سے زیادہ پودے لگانے ہوں گے اگر زیادہ پودے نہ ہی لگائے جائیں اور پاکستان کا ہر ایک شہری بھی ایک ایک پودا لگائے تو ملک میں تقریباً پچیس کروڑ نئے درختوں کا اضافہ ہو گا ۔ہمارے پیارے نبی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے کہ:
’’جب کوئی مسلمان درخت لگاتا ہے، پھر اس (کے پھل، پتوں یا کسی بھی حصے)سے کوئی انسان یا جانور کھالیتا ہے تو یہ اس کے لیے صدقہ شمار ہوتا ہے۔‘‘
صحیح بخاری، حدیث:6012۔
درختوں کو صدقہ جاریہ سمجھ کر لگانا چاہیے ۔ہمیں آج ہی سے یہ عہد کرنا ہو گا کہ ہم اپنے حصے کا ایک پودا ضرور لگائیں گے ۔پودے لگانے کا بہترین وقت
بہار کا موسم ہوتا ہے۔ کیونکہ اس وقت زمین گرم ہوتی ہیں اور پودے کی جڑوں کو بڑھنے کے لیے کافی وقت ملتا ہے۔ اس موسم میں پودے نئی شاخیں اور پتے نکالنے کے لیے بہترین حالات میں ہوتے ہیں۔
خزاں کا موسم بھی درخت لگانے کے لیے موزوں ہوتا ہے کیونکہ اس وقت درخت کی جڑیں مٹی میں جڑ پکڑ سکتی ہیں اور موسم سرما میں مضبوط ہو سکتی ہیں۔ ہمیں درختوں میں نیم ،پیپل ،شیشم ،برگد،شہتوت وغیرہ جیسے درختوں کے پودے لگانے چاہہیں ۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے کے ہم پاکستانی ہر سال 14اگست کو ہزاروں لاکھوں بلکہ کروڑوں روپے جھنڈیاں وغیرہ کی خریداری میں خرچ کر دیتے ہیں جو کہ ایک قسم کی فضول خرچی ہے اور اس سے قومی پرچم کی توہین اور بے عزتی ہوتی ہے کیونکہ 14اگست کے بعد وہی جھنڈیاں گلیوں،
محلوں میں بکھری پڑی ہوتی ہیں اور پاؤں تلے روندی جاتی ہیں اور کسی کو اس بات کا احساس تک نہیں ہوتا ۔اس کی بجائے اگر ہم ایک ایک پودا لگائیں تو یہ وطن سے حقیقی محبت ہو گی اور ملک سر سبز اور شاداب ہو گا اور گرمی کی شدت میں بھی کمی آئے گی اور ہماری آئندہ نسلوں کا مستقبل بھی خوش گوار ہو گا اللہ تعالیٰ ہمیں ان تمام باتوں کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین ۔
واہ
واہ۔ معاصر درپیش اہم مسئلے کی نشاندہی اور شاندار اظہاریہ ، ماشاءاللہ ، زورِ قلم میں اضافہ ہو۔