تحقیق ۔۔میاں شمشاد حسین سرا ئی
کسی نقاد نے کیا خوب کہا تھا کہ "ادب زندگی کا ائینہ ہوتا ہے” ادب کی تاریخ انسان کے لبوں سے ادا ہونے والے پہلے لفظ سے شروع ہو جاتی ہے لیکن ہر علاقے اور ہر شہر کی اپنی تہذیب، ثقافت اور تاریخ ہوتی ہے لیہ جسے شہرِدانش یا ادب کا ایتھنز (یونان) کہا جاتا ہے اس کا ادب بھی اتنا قدیم ہے جتنا کہ یہ شہر قدیم ہے۔ اسکی ادبی تاریخ بھی اپنا مقام رکھتی ہے لیہ کے ادبی منظر نامے کا اگر جائزہ لیں تو یہ علم و ادب میں بھی کسی سے پیچھے نہیں رہا اس کی علمی و ادبی محفلوں پر دبستانِ لکھنو کو گمان ہوتا ہے لیہ وہ صدف ہے جس کی کوکھ سے ایسے ایسے چمکدار لعل و گوہر نمودار ہوئے جن کی چمک آج بھی برصغیر کے ادب کو روشن کیے ہوئے ہیں برصغیر پاک و ہند کے نامور ادیب، دانشور، شاعر، ماہر تعلیم اور مورخ جن کی تخلیقات کو ملک اور بیرون ملک ہر جگہ تسلیم کیا گیا ہے
ان کا تعلق بھی سرزمینِ لیہ سے تھا جن میں لالہ تیج بھان عصر، بندر ناھ چیت اداس پنڈت ڈاکٹر گوپی چند نارنگ، ہری چند پردیسی، رانا پرتاب گنوڑی جٹھا ،نند گنبر پیٹی، موڈر داس جی،شری کے۔ایل۔ گابا اور مہندر پرتاپ چاند کے نام نمایاں نظر آتے ہیں ان میں اکثر شعرا کا کلام تو معلوم نہیں۔ البتہ کے ایل گاہ کی کتاب پیغمبرِ صحرا سامنے آتی ہے جس کا ترجمہ پروفیسر احمدالدین مارہروی نے کیا ہے ۔اسی طرح ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کی کتاب یا ان کی حیات و خدمات پر ایک کتاب جو ڈاکٹر محمد حامد علی خان نے لکھی ہے وہ بہت ہی قابل ذکر ہے اس میں وہ لکھتے ہیں کہ گوپی چند نارنگ کے آباؤ اجداد مغربی پنجاب میں لیہ ضلع مظفر گڑھ سے تعلق رکھتے تھے ان کا گوتھر کشیب ہے جو وزن کے اعتبار سے کھتری ہوتے ہیں ان کے دادا شری چمن لال نارنگ زراعت پیشہ تھے ننہال والے بھی زراعت پیشہ تھے شہر کے دائیں جانب سندھ کا معاون دریا دریائے لالہ بہتا تھا برسات میں اس کی لہریں تو یعنی دور دور کے علاقوں کو زیرآب کر دیتی تھی کیونکہ جغرافیائی نقشے پر لیہ جسے اب ضلع کا درجہ حاصل ہے عجیب و غریب جگہ پر واقع تھا۔ دائیں جانب کا علاقہ جھک یعنی نشیب کہلاتا ہے اور ریلوے لائن سے بائیں کی طرف کا علاقہ تھل کہلاتا ہے یہ ہر اعتبار سے ریگستان ہے جو بہاولپور سے نواب شاہ اور رحیم یار خان صوبہ سندھ تک چلا جاتا ہے تھل کی شہرت خربوزے، ککڑی ،مولی، گاجر، شلجم اور باجرہ کی کاشت کے لیے اور جھک کا علاقہ آم اور جامن کے باغات کے لیے مشہور ہے ساون کے دنوں میں یہ علاقہ حد درجہ زرخیز ہو جاتا ہے اور اس کے باغات میں پپیہے اور کوئل کی آوازیں فضا کو مخمور کر دیتی ہیں دادیہال اور ننہال دونوں عزیز رشتہ داروں میں تعلیم و ملازمت کا سلسلہ رہا ان کے ماموں شری متوال چند دھینگنا نواب صاحب قلات کے دیوانِ خاص یعنی وزیرِ خزانہ تھے اور والد بزرگوار کے ماموں رائے صاحب ٹوپی ٹوپن لال بلوچستان سروس میں ایکسائز کمشنر تھے یہ عہدے خاندانی رکھ رکھاؤ اور سماجی حیثیت کی دلیل تھے کیونکہ اس زمانے میں ہندوستانیوں کے حصے میں یہ عہدے مشکل سے آتے تھے والدہ ٹیکاں دیوی حد درجہ خاموش طبیعت خدمت گزار گھریلو مزاج کی عورت تھی دس اولادیں ہوئیں چھ بیٹے اور چار بیٹیاں ہمہ وقت امور خانہ داری میں لگی رہتی تھی ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کی والدہ کی مادری زبان سرائیکی تھی ۔لیکن پورے گھر میں زبان اردو تھی۔ گھر میں اردو فطری طور پر بولی جاتی تھی گوپی چند نارنگ کی ابتدائی تعلیم کا آغاز اردو اور سنسکرت زبان سے ہوا اور وہ والد بزرگوار اور برادر بزرگوار شریف جگدیش چندر نارنگ کے زیر نگرانی تعلیم مکمل کرتے رہے اسی جماعت ہی میں تھے کہ دوسری جنگ عظیم کے بادل چھا گئے اور پرائمری تعلیم کے بعد لیہ ضلع مظفرگڑھ چلے آئے اور گورنمنٹ ہائی سکول لیہ میں ساتویں کلاس میں داخل ہوئے یہاں ان کی ملاقات شفیق استاد مولوی مرید حسین ڈوگر مرحوم سے ہوئی جو اردو ،فارسی کے استاد تھے مڈل سکول میں ان کا لازمی مضمون اردو اور اختیاری مضمون سنسکرت تھا لیکن مڈل کے بعد سائنس کی جماعت میں داخل ہوئے اور مارچ 1946 میں گورنمنٹ ہائی سکول لیہ سے میٹرک کے امتحان میں اول پوزیشن کے ساتھ کامیابی حاصل کی والد بزرگوار کی خواہش تھی کہ زراعت سائنس میں بی ایس سی کی۔ لیکن تاریخیں نکل جانے سے ان کی کامیابی نہ ہو سکی پھر ان کا داخلہ سڈے من کالج کوئٹہ میں ہوا اوراچھے نمبروں کی وجہ سے ماہانہ فیس تو معاف ہوگی لیکن ہاسٹل کی سہولتیں فراہم نہ ہو سکیں لہذا کوئٹہ کو خیرباد کہہ کے دہلی آگئے اور والدین کی قربت سے بھی وقتی طور پر محروم ہو گئے ڈاکٹر گوپی چند نارنگ جب ہندوستان گئے تو وہاں بھی انہوں نے اپنے علم ادبی ا کٹ کو منوایا ۔دہلی یونیورسٹی میں صدر شعبہ اردو مقرر ہوئے آپ کی یاداشتوں پر مبنی ایک انٹرویو شری کشو ملتانی نے آپ سے لیا جو کہ سوشل میڈیا پر بہت معروف ہوا اور آج بھی اس کی بازگشت سنائی دیتی ہے اور اس کے بعد آپ گزشتہ سال مختصر علالت کے بعد فوت ہوئے ۔لیہ کے ہندو شعراء میں سے ایک دوسرا بڑا نام مہندر پرتاپ چاند کا ہے ۔آپ سرزمینِ کروڑ لعل عیسن ضلع لیہ میں یکم اگست 1935 کو پیدا ہوئے مادری زبان سرائیکی تھی۔انگریزی اردو فارسی ہندی اور پنجابی سےبھی واقف تھے۔ لیکن شاعری کے لیے اردو زبان کا انتخاب کیا ممتاز و معروف شاعر قیس جالندھری کی شاگردی کا شرف حاصل کیا۔ مہندر پرتاپ چاند صاحب نے اردو اور لائبریری سائنس میں ایم اے کیا اور حصول تعلیم کے لیے لائبریرین بن گئے اور 36 سال تک بطور لائبریرین خدمات سرانجام دی اور وہیں اسی پوسٹ پر ریٹائرڈ ہوئے چاند صاحب کے تین شعری مجموعے "حرف راز”، "زخم آرزوں کے” اور "آزارِ غمِ عشق” چھپ چکے ہیں تالیفات میں حالی پانی پتی کی غزلیں دیوناگری رسم الخط میں لاوا مثنوی کیس جالندھری کولن کلاسیفکیشن اور دیس اور پردیش کی لوگ کتھائیں قابل ذکر ہیں۔ تیسری کتاب میں ڈاکٹر ہری ونیش انجا کا دستِ تعاون شامل رہا بنیادی طور پر چاند صاحب غزل کے شاعر تھے اور تمام اصنافِ شاعری میں غزل ہی اُن کا محبوب موضوعِِ سخن رہی لیکن نظم ،قطعہ ،رباعی اورمسدس لکھنے میں بھی جولانیاں دکھائیں ۔شاعری کے علاوہ مضامین ،کہانیاں اور تبصرے لکھے۔ ملک کے مقتدر رسالوں میں ان کا کلام چھپتا رہا ریڈیو، ٹیلی ویژن سے بھی اپنا کلام نشر کراتے رہے آپ کو ادبی خدمات کے عوض بہت سارے اعزازات مل چکے ہیں ہریانہ اردو اکیڈمی نے انہیں سید مظفر حسین برنی ایوارڈ برائے 1992 اور 93ء سے نوازا ادبی سنگم کور کیشتر نے 1991 میں ایوارڈ دیا ۔اٹل بھارتی ترن سنگھ کور و کشتر نے 1995 میں ان کو ایوارڈ سے نوازا۔ دانشورانِ عالم کا جو بھی ظاہری مذہب و مسلک ہو وہ اپنی جگہ لیکن ان کا دل کسی آستانے کا طوائف کر رہا ہوتا ہے ان کی جبین کسی کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہوتی ہے تو ان کی گردن کسی درِ دولت پر خم ہوتی ہے۔ وہ ان کے کلام سے صاف طور پر عیاں ہوتا ہے مہندر پرتاپ چاند صاحب سے جب دریافت کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ "سرکار مدینہ کی شفاعت کا ہوں قائل” "دل اور کسی شے کا طلبگار نہیں ہے” "دیکھا نہیں ہے چاند سخنور کوئی ایسا” "جو مُتقدِ حیدر کرار نہیں ہے” معروف دانشور کشمیری لال ذاکر ہریانہ ان کے بارے میں لکھتے ہیں "نشاط قلم مہندر پرتاب چاند کے تنقیدی تحقیقی ہور شخصی مضامین کا دوسرا مجموعہ ہے اس میں کل 12 مضامین ہیں مضامین کی فہرست کو دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان ان میں کتنا تنوع ہے اور چاند صاحب نے ان میں معلومات کا کتنا نادر ذخیرہ سمیٹ دیا ہے” اسی کتاب میں پاکستان میں اپنی آبائی وطن کے سبب کروڑ لعل عیسن میں جانے اور وہاں کی محفلوں کو روشن کرنے کی بڑی دلچسپ داستان ہے جو پہلے ماہنامہ "چہارسو راولپنڈی” اور پھر "ہفت روزہ مسرت نئی دہلی” اور روزنامہ ہند سماچار جالندھر میں کئی اقساط میں چھپ چکی ہے اور پڑھنے والوں نے اس کی بھرپور تعریف کی ہے جن میں "مجھے سب یاد ہے ذرا ذرا” سفرنامہِ لیہ اور کروڑ لعل عیسن قابلِ ذکر ہے۔اسی سفر نامہ کےصفحہ نمبر 107 کا اغاز کچھ یوں لکھتے ہیں کہ لگ بھگ 15، 16 برس پہلے ملتان کے ماہنامہ سرائیکی ادب کے شمارہ نمبر 10 جلد 23 ۔ 1994 میں میری پہلی سرائیکی غزل شائع ہوئی تو قریب دو ہفتے کے بعد مجھے لیہ سے حکیم میاں الہی بخش سرائی کا ایک کرم نامہ موصول ہوا جن سے منسلک متعلقہ صفحہ کی فوٹو کاپی بھی شامل تھی میاں جی نے غزل کی تعریف کرتے ہوئے اس خوشگوار حیرت کا اظہار کیا کہ اتنے برس گزر جانے کے باوجود میں نے اپنی ماں بولی مادری زبان سرائیکی کو نہ صرف یاد رکھا بلکہ اس زبان میں اچھا کلام بھی کہا ہے اسی خط کی وساطت سے میاں الہی بخش سرائی سے میرا رابطہ ہو گیا اور میں نے کئی خطوط کا تبادلہ کیا اور اُ۔ خطوط میں نے لکھا کہ میری جائے ولادت تو کروڑ لعل عیسن ہے جو تقسیم ملک کے وقت ضلع مظفرگڑھ میں تھا کروڑ کے پرائمری سکول میں ہماری جماعت کے کمرے میں ضلع مظفرگڑھ کے متعلق دیوار پر جو چارٹ آویزاں تھا اس میں درج ذیل تین مصرعے یا دو مصرعے مجھے ابھی یاد ہیں” میرے ضلعے دیاں چار تحصیلاں سن لے میرے بھیا” "علی پور، مظفرگڑھ، کوٹ ادو تے لیہ” قیام پاکستان کے بعد کچھ سال بعد لیہ کو تحصیل سے ضلع بنا دیا گیا اور میرا آبائی قصبہ یعنی کروڑ لعل عیسن اس ضلع کی تحصیل بن گیا۔اپنی کتاب "نشاط قلم” میں اپنی یاداشتوں کو محفوظ کرتے ہوئے صفحہ نمبر 115 پر لکھتے ہیں کہ جب میں دائرہ دین پناہ سے لیہ کی طرف روانہ ہوا تو میاں صاحب کے دوسرے بیٹے عزیزی امداد حسین اور میاں جی کے بھتیجے عزیزی میاں شمشاد حسین نے سڑک پر ہی ہمارا استقبال کیا ان کے ہمراہ ہم میاں جی کے دولت کدے پر پہنچے تو انکی نیاز حاصل کرنے کے لیے میری انکھیں بے اختیار خوشی کے آنسو لیے چھلک پڑی انہوں نے بھی نم آنکھوں سے مجھے گلے لگایا اور پھر دیر تک غور سے دیکھتے رہے چند ماہ قبل ہی پہلے ان کی جواں سال بیٹی عزیزہ بیوہ ہو گئی اور پھر ان کے چھوٹے بھائی لقمہء اجل ہو گئے انہی صدمات کی وجہ سے ان کی قوتِ گویائی چلی گئی تھی جس کے نتیجے میں وہ بسیار کوشش کے باوجود کچھ بول نہیں پا رہے تھے بس ان کی بے بس انکھیں ہی مجھ پر شفقت نچھاور کر رہی تھی وہ کئی بار اسی عالمِ لاچارگی میں مجھے دیکھتے اور سر پر ہاتھ پھیرتے اور کبھی میرے سامنے ہاتھ جوڑ کر بیٹھ جاتے مجھے ان کی یہ لاچاری دیکھ کر اپنی مجبوریوں پر مجھے ندامت ہو رہی تھی کہ میں اتنے برسوں تک ان کے بار بار بلانے پر یہاں پہلے کیوں نہیں آیا غالبا یہ میری اسی مجبوری کی سزا تھی کہ آج میں ان کی شیریں کلامی سے محروم رہ کر بے بس لاچار بیٹھا تھا تھوڑی بہت بولنے کی کوشش کرتے تو عزیزی امداد حسین اور شمشاد حسین ان کو بتا دیتے لیکن میری تشنگی برقرار رہی اور میں نے ان سے وعدہ کیا کہ آپ انشاءاللہ جب سے بولنے لگیں تو میں خصوصی طور پر آپ سے ملنے کے لیے دوبارہ آؤں گا اسی کتاب کے صفحہ 16 میں 26 اکتوبر 2010 کا واقعہ قلم بند کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ شمشادحسین سرائی جو کہ ادبی تنظیم کے سرپرست تھے انہوں نے ایک جانے مانے صحافی اور عزیز ثاقب خان سے بھی ملاقات کرائی اور میاں امداد حسین اور دیگر احباب سے بھی ملاقات کرائی اگلے روز دوپہر 12 بجے وہ اور ان کے دیگر کئی رفقاء ہمارے عزیز بین الاقوامی ادبی قافلہ اور بزم دانش کی طرف سے ایک شاندار تقریب کا اہتمام کیا گیا جس میں مجھے ایوارڈ سے نوازا گیا وہ "نسیم لیہ ایوارڈ” تھا جو میرے لیے فخر کی بات تھی۔ کیونکہ نسیم لیہ میری دھرتی لیہ کے ہی بہت نامور شاعر تھے لیہ کے شعراء کرام کا ایک جم غفیر تھا جو میری اس اعزازی نشست میں موجود تھے دوسری نشست محفل مشاعرہ پر مشتمل تھی جن میں کئی ممتاز شعراء نے محفل کو محظوظ کیا اور باری باری ہمارے بھی انہوں نے کلام سنے اور خصوصی طور پر میں نے اپنی نظم نذر کروڑ سنائی نذرِکروڑمیرے کروڑ کی پاکیزہ سرزمین تجھ کو تیرے دیار کا شاعر سلام کرتا ہے جھکا کے اپنی جبین نیاز تیرے حضور زبان شیریں میں تجھ کو کلام کرتا ہے تیری زمین یہ بے ولادت کا ہے شرف مجھ کو تیری فضاؤں سے رشتہ ہے میرے بچپن کا ابھی تو بارہ بہاریں ہی میں نے دیکھی تھیں یہ تجھ سے دور مشیت نے مجھ کو پھینک دیا خدائی قہر تھا یا کھیل تھا سیاست کا یہ میری کم سنی اس وقت کچھ بھی سمجھ نہ سکی بڑا ہوا تو نیا وقت تھا نئے حالات تھے میری نگاہیں تیری دید کو ترستی رہیں نئے دیار میں جب جب تیرا خیال آیا تو ایک برق سی قلب ہزیں پہ لہرائی میں تجھ سے پوچھتا ہوں اے میرے عزیز وطن تجھےکیا کبھی بچھڑے ہووں یاد ائی نہیں نہیں تو ملول ہے اب تک ہے تیرے دل میں بھی قائم ابھی میری تصویر یہ تیری دید کی حسرت جو آج تک ہے جواں تیری فضاؤں کی جذب کشش کی ہے تاثیر میرے کروڑ کی پاکیزہ سرزمین تجھ کو تیرے دیار کا شاعر سلام کرتا ہے جھکا کے اپنی جبینِ نیاز تیرے حضور زبان شیریں میں تجھ سے کلام کرتا ہے مہندر پرتاپ جو دھرم کے حوالے سے ہندو تھے لیکن انہیں کربلا سے بہت عقیدت تھی اور انہوں ان کا رثائی کلام "خوانین نوا ” کتاب جو ہندو شعراء کے مرثیوں اسلامی قطعات اور سلاموں پر مبنی ہے۔جسکی تحقیق و تدوین عرفان ترابی نےکئی مہندر پرتاب چاند واقعات کربلا سے بڑے متاثر تھے اور انہوں نے ہمیشہ جموں کشمیر میں محرم کے محفلِ مسالمہ میں صدارت فرمائی بارگاہ مظلوم کربلا میں لکھتے ہیں ایک طرح مصرعے پر زمانے بھر کے گھرانوں میں گھر حسین کا ہے طبع آزمائی کرتے ہوئے لکھتے ہیں یہ جان اسی کی امانت یہ سر حسین کا ہے میرا ایک ایک نفس سر بسر حسین کا ہے دلوں میں امت احمد کے ہیں مقیم و شہید زمانے بھر کے گھرانوں میں گھر حسین کا ہے رواں ہے یاد میں اس کی جو میرے اشکِ نیاز یہ ہدیہ بھی تو میری چشم تر میں حسین کا ہے جو منفرد ہے جہاں میں وہ جذبہ ایثار کسی کا ہو نہ ہو شاید مگر حسین کا ہے جو قتلِ اصغرؑ و اکبرؑ کے ذکر پہ رویا حبیب خاص وہ اے نوحہ گر حسین کا ہے تڑپ رہا ہے جو صحرا میں پیاس کے مارے وہ ماں کی گود میں لخت ِ جگر حسین کا ہے یہ آستانہ وہی ہے زہ نصیب ہے چاند جھکا رہے ہو جہاں سر وہ در حسین کا ہے ایک اور سلام کے اشعار ملاحظہ فرمائیں شہید ہو کے جہاں کو رُلا دیا تو نے حسین درد کا دریا بہا دیا تو نے وہ سکہ صدق و صفا کا چلا دیا تو نے نشان کفر جہاں سے مٹا دیا تو نے شان حسینؑ میں مہندر پرتاب چاند ایک اور سلام میں فرماتے ہیں سب مومنینِ دہر کی تقدیر ہے حسینؑ انسانیت کے نام کی توقیر ہے حسینؑ نیت ہے صاف پختہ ہے ایمان گھر تیرا پھر ہر قدم پہ تیرا انا گیر ہے حسینؑ ہر معرکے میں لشکرِ کفار کے لیے تیر و تفنگ نیزہ و شمشیر ہے حسین امن و سکوں ہو دہر میں ایمان کی جیت ہو اس خواب تابدار کی تعبیر ہے حسینؑ تو چاند دلِ شکستہ ہے کیوں مشکلات سے جب چارہ ساز و ہادی و تدبیر ہے حسینؑ مہندر پرتاپ چاند ایک اور طرح مصرعے پر طبع ازمائی کرتے ہوئے رقمطراز ہیں آج بھی غافل ہیں اس کے عزم ان کی تنویر سے” لوگ واقف ہی نہیں ہیں مقصد شبیر سے” روکنا جب ظلم کا ممکن نہ ہو تدبیر سے ہے روا پھر کام لینا قوت شمشیر سے بڑھ گئے عباسؑ دشمن کی صفوں کو چیر کر باندھ پاتا کون طوفاں کو بھلا زنجیر سے وہ جگر گوشہء علیؑ کا فاطمہؑ کا لخت دل ابن حیدر تھا وہ کیا ڈرتا کسی شمشیر سے لذتِ شوقِ شہادت چاند کیا جانے کوئی سر کٹانے کا مزہ پوچھے کوئی شبیر سے المختصر لیہ کے ہندو شعراء نے بھی جہاںِ اردو ادب میں اپنا ارفعیٰ و اعلی مقام پیدا کیا اور اپنی تخلیقات سے پورے برصغیر کے ادب کو متاثر کیا۔