تحریر:ریاض احمد جکھڑ
پاکستان تحریک انصاف اس وقت سیاست میں مرکز نگاہ بنی ہوئی ہے جس کی بنیاد پر وہ سیاسی انتہائی کا شکار اپنی پالیسیوں کی بنا پر ہو رہی ہے پرامن احتجاج پارٹی کا حق ہے لیکن جس طرح پی ٹی ائی کے جلسوں میں سپورٹرز کو مبینہ طور پر اشتعال دلانے کی کوشش اور سیاست سے ہٹ کر تشدد کی طرف مائل کیا جا رہا ہے وہ بھی انتہائی افسوسناک ہے جن میں کے پی کے کے وزیراعلی علی امین گنڈاپور کے غیر ذمہ دارانہ بیانات ان کے اعلی منصب پر فائز شخص کے طور پر شیان شان نہیں ایسا وہ کئی بار کر چکے ہیں جبکہ وہ جانتے ہیں کہ پاکستان اس وقت معاشی اور سیاسی عدم استحکام کا شکار ہو چکا ہے جس میں اتحاد و یگانگت کی ضرورت ہے اس قسم کا رویہ یقینی طور پر تقسیم اور انتشار کا باعث بنتا ہے ملک پہلے ہی بدانتظامی اور سیکیورٹی کے گمبھیر مسائل کا شکار ہے جو حکومت کو مربوط منصوبہ بندی کا تقاضا کرتی ہے کیونکہ اس میں داخلہ امور پر اتنی توجہ نہیں ہے جس کی بنیاد پر جرائم کی شرح پڑھ رہی ہے وزیر اعلی کے پی کے اپنے صوبے کی عوام کے مینڈیٹ کو عزت دیں احتجاجی سیاست کے بجائے عوام کی خدمت کو اولین ترجیح دیتے ہوئے صوبے میں دہشت گردی کے خاتمے کا زبردست کام کریں ضروری ہے کہ صوبے کے مسائل حل کرنے پر تمام سٹیک ہولڈرز بھی اپنا کردار ادا کریں گے پولیس اور سیکیورٹی فورسز کی استعداد کار کو بڑھانے کی کوشش کی جائے وفاق کے ساتھ مل کر صوبوں میں امن و امان کے قیام کو بہتر بنایا جا سکتا ہے جس کے ساتھ ہی معاشی ایجنڈا جڑا ہوتا ہے پاکستان میں جو مسائل کا شکار ہیں ان کا واحد حل اتحاد یگانگت اور تمام سیاسی پارٹیوں کو مل کر حل سوچنا ہے یہ نہیں کہ وہ ائینی ترامیم کے لیے ایسے کھڑے ہو جائیں جیسے جمہوریت نہیں آمریت ہو جس طرح سے پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن آئینی ترامیم پر زور دینے کے لیے کوششیں کر رہی ہیں وہ طریقہ کار ہرگز درست نہیں ہے جس کے کبھی درست نتائج نہیں نکلیں گے یہ ترامیم اس طرح ہوں گیں جس طرح پہلے پی ڈی ایم ون میں ملک سے کرپشن کے خاتمے کی بجائے کرپشن کو ہوا دی گئی اس کے لیے سہولت کاری قانون میں مہیا ہوئی اور احتساب کے ادارے مفلوج ہو کر رہ گئے اس سے دونوں بڑی جماعتوں کو تو فائدہ پہنچا کہ ان کے تمام کیسز ترامیم ہونے سے ختم ہو گئے اب بھی یہ ترامیم زور جبر سےکر رہی ہے کہ وہ اپنے فائدے کے لیے کرنا چاہتے ہیں اس میں عوام کے لیے ایک شق بھی شامل نہیں ہے نہ ہی کرپشن کے خاتمے کے لیے کوئی تجویز یا امن و امان کے قیام کے لیے نہ صوبوں کی یکجہتی کے لیے نہ سیاسی پارٹیوں کو مل بیٹھ کر ملکی معاشی حالت بہتر بنانے کے لیے بلکہ ایک ضد ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کو مات دینی ہے سیاسی حکومتوں میں پارلیمانی جمہوری ریاستوں میں اس طرح سے کیے گئے فیصلے کامیاب نہیں ہوتے آئین میں ترامیم پہلے بھی ہوتی رہی ہیں لیکن اس میں تمام سٹیک ہولڈرز اور سیاسی جماعتیں سول سوسائٹی عدلیہ کو اعتماد میں لیا جاتا رہا ہے لیکن یہ واحد ترامیم ہے جو چھپا کر اور زور جبر سے کرنے کا ارادہ حکومت رکھتی ہے حالانکہ حکمران جانتے ہیں ملک معاشی طور پر پوری طرح سے ڈوبا ہوا ہے ان ترامیم سے انہیں کوئی فائدہ نہیں ہے نہ ہی براہ راست عوام کو کوئی فائدہ پہنچے گا وہ ان سے نکل کر صرف اور صرف عوام کی معاشی حالت کو بہتر بنائیں تب بھی تمام مسائل ختم ہو جائیں گے جب ملک میں امن و امان ہوگا تمام اکائیاں مل کر مرکز کو سپورٹ کریں گی تو پھر نہ قرضوں کی ضرورت ہوگی اور نہ ہی ائی ایم ایف کے ترلے کرنے پڑیں گے اس لیے ضروری ہے کہ اب بھی وقت ہے حکمران ہوش کے ناخن لیں اور ووٹ کو عزت دیں جو پارلیمنٹ کی بالادستی سے ہی ممکن ہے اگر کوئی کام بھی اپوزیشن کے بغیر کیا گیا تو نہ تو کامیاب ہوگا نہ عوام میں اسے پذیرائی حاصل ہوگی اور یہ انتشار کی سیاست ملک کو معاشی طور پر مزید کمزور کر دے گی