تحریر : مہر کامران تھند لیہ
پاکستان کے دیگر صحراؤں کی طرح صحراء تھل بھی اپنی، گرمی، سردی، پانی کی کمی، خشکی ، ریت کے ٹیلوں اور جھاڑیوں پر مشتمل ایک صحراء ہے جو کہ جنوبی پنجاب کے اضلاع، میانوالی، خوشاب، بھکر، لیہ ، جھنگ اور کوٹ ادو پر مشتمل ہے اسکی منفرد خصوصیت یہ ہے کہ یہ علاقہ گرمیوں میں شدید گرم اور سردیوں میں شدید ٹھنڈا ہو جاتا ہے ،گرمیوں کی آمد اپریل سے ہی یہاں شدید آندھیاں ، طوفان شروع ہوتے ہیں جو وسط ستمبر تک جاری رہتے ہیں اسی طرح موسم سرما میں نومبر سے ہی دھند کی لپیٹ میں آ جاتے ہیں اور مارچ کے شروع تک دھند اپنا کام دکھاتی رہتی ہے ، جنڈ، کیکر، بوہڑ، پیپل، شیشم ، سرکنڈے، بیری ، کھگل ، اور جال یہاں کے مقامی درخت ہیں لیکن بعد میں سفیدہ، سرینہہ نے اپنا لوہا منوایا تو مقامی درختوں کی کمی ہوتی گئی اور درجہ حرارت اوپر کی منازل طے کرتا گیا ، ایسے میں تحریک انصاف کے دور حکومت میں ماحولیاتی تبدیلی پر کام کرنے کا آغاز ہوا تو درختوں کی اہمیت و افادیت بارے انتظامیہ متحرک نظر آئی ، سڑک کنارے درخت لگانے سمیت شجرکاری مہم کو تیز کیا گیا مختلف مقامات پر درختوں کی مناسب دیکھ بھال سے کچھ بہتری نظر آئی لیکن بہت سوں مقامات سے شجرکاری تو دیکھنے میں آئی لیکن انکی مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کے سبب وہ تناور درخت نہ بن سکے ، میں سمجھتا ہوں اسکی وجہ عوامی آگاہی کا نہ ہونا تھا، سرکاری اداروں کی متزلزل دلچسپی, عوام کا عدم رحجان موسمیاتی تبدیلیوں کی طرف توجہ نہ دلا سکا ، اور نہ ہی صحافتی سطح پر اس طرف توجہ دی گئی ، ہم خود عرصہ دس سال سے شعبہ صحافت کے ساتھ منسلک ہونے کے باوجود صرف سرکاری کاروائیوں کو اپنی سرخیوں میں جگہ دیتے رہے ، اس دوران جی این ایم آئی کی جانب سے لاہور میں صحافیوں کو سبز جرنلزم فیلو شپ کی ٹریننگ سیشن کے لئیے بلایا گیا اور ہم تین دن کے لئیے اس ٹریننگ سیشن میں شامل ہوئے تو موسمیاتی تبدیلیوں بارے عملی آواز بلند کرنے کی طرف توجہ دلائی گئی ، اس ٹریننگ سیشن میں ہم نے اپنے علاقے تھل میں موسمیاتی تبدیلیوں بارے غور کیا اور واپسی پر ان چیزوں کو محسوس کیا تو شدید حیرانگی ہوئی کہ موسمیاتی تبدیلیوں نے توہم سے بہت سی چیزیں چھین لی ہیں ، شیشم کے درخت کا گمشدگی، کیکر کی عدم دستیابی ، بیری کی ناموجودگی، کھگل کی کٹائ، پرندوں کی موت، اور دیگر وہ اہم حشرات، چرند، پرند ہماری آنکھوں سے گم ہوتے گئے پھر اس پر غوروغوض ہوا تو علم ہوا کہ ہمارے پاس تو درخت ہی ختم ہوچکے ہیں، سرکاری جنگلات کے رقبہ سفید پلاٹوں میں بدل چکے ہیں ۔ سبز جرنلزم فیلو شپ میں ٹرینر کی دہرائی گئی باتیں ہمیں مزید حیرانگی میں ڈھالتی گئیں ایسے میں گرمیوں نے اپنا رخ بدلا اور ہمارے تھل کا درجہ حرارت جو کبھی پچاس سے اوپر نہیں گیا تھا اب پچاس ڈگری سے اپنے موسم گرما کا آغاز کررہا تھا، شدت گرمی تو ایک دن 60 ڈگری محسوس ہورہی تھی ایسے میں ہم نے کمر کس لی اور ضلعی انتظامیہ ڈپٹی کمشنر لیہ ، محکمہ جنگلات اور دیگر اداروں کو نشان دہی شروع کی کہ ہم سب مل کر موسمیاتی تبدیلیوں میں کیا کردار ادا کرسکتے ہیں تو محکمہ جنگلات کی خالی زمینوں کی طرف توجہ دلائی کہ یہاں ہزاروں پودے لگائے جاسکتے ہیں تو حکومتی احکامات کی روشنی میں ضلعی انتظامیہ بھی کافی متحرک نظر آئی اور سرسبز جرنلزم فیلوشپ کی ٹریننگ نے بھی اپنا کام کرنا شروع کیا تو ضلعی انتظامیہ نے لیہ میں ایک لاکھ پودہ لگانے کا ٹاسک بنایا ، اور اس بار محکمہ جنگلات لیہ نے لاکھوں پودے دینے کی ٹھان لی ۔ ماچھو سب ڈویژن رینج میں بیلداروں نے اپنا کام شروع کیا کیونکہ ایسی جگہ کا انتخاب کیا گیا جہاں جنگلات کے بیچو بیچ نہری پانی کی دستیابی یقینی تھی تو ایک دن میں ایک سبز پاکستان مہم کے تحت تیس ہزار پودے لگانے کا ٹاسک لگا لیکن اس دن گرمی کے باعث سات ہزار پودے لگائے گئے جو کہ ایک اہم ترین کامیابی تھی ، اسی طرح یہ مہم چلی تو گزرتے ہوئے لیہ چوک اعظم سڑک کے بیچ گرین بیلٹ پر دکانداروں کے تشہیری سائن بورڈ کا قبضہ دیکھ کر سبز جرنلزم فیلو شپ کی ٹریننگ پہلو نے آنکھ پھڑکا دی اور ضلعی انتظامیہ کو بزریعہ اخبارات بتایا گیا کہ یہاں بھی درخت لگائے جاسکتے ہیں اور لگتا تھا اس بار انتظامیہ بھی جگہ ڈھونڈھ رہی ہے پھر کیا تھا چوبیس گھنٹوں میں ہی انتظامیہ نے سڑک کے گرین بیلٹ سے تشہیری بورڈ اکھاڑ پھینکے اور اگلے چوبیس گھنٹوں میں میونسپل کمیٹی لیہ اور محکمہ جنگلات لیہ کے عملہ نے پودے لگا دئیے ، مزے کی بات یہ کہ اس دوران قدرت کو بھی یہ انداز شجرکاری پسند آئی کہ پودے لگانے کے دوسرے دن سے ہی تین دن بارش برسی اور اگلے دو ہفتے بارش برسی جس سے تقریبا 15 کلومیٹر کی دو رویہ سڑک کے بیچ گرین بیلٹ پر ہزاروں پودے اپنی بڑھوتری کی طرف گامزن ہوئے اور ساتھ میں مختلف مقامات پر محکمہ جنگلات کی زمینوں پر لگائے گئے پودے قدرتی بارشوں کی تین ہفتوں سے آمد نے مزید کھلنے، پھلنے اورپھولنے کے مواقع میسر آئے ۔ اور ہم سمجھتے ہیں کہ جب انسان کوئی قدم اٹھاتا ہے تو قدرت بھی اسکے قدم میں قدم ملاتی ہے تو راستے کھلتے چلے جاتے ہیں ، اور اسکا سہرہ موسمیاتی تبدیلیوں کی آواز بلند کرنے میں جی این ایم آئی کی سبز جرنلزم فیلو شپ کا کردار ہے وہ سب سے زیادہ ہے۔ اگر اس فیلوشپ کا دائرہ کار ضلعی سطح کے صحافیوں تک پھیلایا جائے تو ہم سمجھتے ہیں اسکے مفید نتائج حاصل ہوں گے۔