تحریر ؛ ساجد محمود
پاکستان میں کپاس کی پیداوار میں مسلسل کمی ایک اہم قومی مسئلہ بن چکی ہے، جس سے نہ صرف ملکی معیشت متاثر ہو رہی ہے بلکہ لاکھوں کسانوں کا روزگار بھی خطرے میں پڑ گیا ہے۔ اس صورتحال میں یہ سوال بار بار اٹھایا جا رہا ہے کہ کپاس کی پیداوار میں اس تنزلی کا ذمہ دار کون ہے؟ کیا یہ کپاس کے کاشتکاروں کی غلطیاں ہیں یا تحقیقاتی ادارے اس کے قصوروار ہیں؟ یا پھر اس کے پیچھے کوئی اور وجوہات پوشیدہ ہیں؟ ایسے میں یہ بات نہایت ضروری ہے کہ ہم اصل حقائق کو سمجھیں اور ذمہ داروں کا تعین کریں تاکہ کپاس کی بحالی کے لیے مؤثر اقدامات کیے جا سکیں۔
اگر بات پاکستان سنٹرل کاٹن کمیٹی (PCCC) کی کی جائے تو یاد رکھیں کسی بھی ادارے یا فرد کی کارکردگی کا پیمانہ اس کے دستیاب وسائل کو سامنے رکھ کر کیا جاتا ہے۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ PCCC کے تمام مالیاتی امور، بشمول تنخواہیں، پنشنز، اور تحقیقاتی سرگرمیاں، مکمل طور پر کاٹن سیس پر انحصار کرتی ہیں۔ حکومتی سطح پر کسی قسم کی مالی معاونت فراہم نہ ہونے کی وجہ سے یہ ادارہ ٹیکسٹائل مل مالکان کے رحم و کرم پر ہے۔ یہ انتہائی افسوسناک حقیقت ہے کہ 2016 سے APTMA نے PCCC کو قانونی پیچیدگیوں میں الجھا کر اسے کمزور کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ کاٹن سیس سے بچا جا سکے۔ گزشتہ آٹھ برسوں میں APTMA نے 65 مقدمات دائر کیے جن میں سے 63 کیسز PCCC جیت چکی ہے، تاہم ان بے جا قانونی کارروائیوں کی بدولت ادارے کو شدید مالی مشکلات کا سامنا ہے، اور اس کے ملازمین گزشتہ 28 ماہ سے تنخواہوں اور پنشن سے محروم ہیں۔ ایسے حالات میں ادارے کی کارکردگی پر سوال اٹھانا سراسر ناانصافی ہے۔
بدترین حالات کے باوجود PCCC کی کارکردگی کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ CCRI ملتان نے 2023 کے قومی ٹرائلز میں صوبہ پنجاب میں کپاس کی نئی قسم Cyto 547 کے ذریعے اول پوزیشن حاصل کی، جو ایک اہم کامیابی ہے۔ اسی طرح CCRI سکرنڈ کی تین اقسام کو سندھ سیڈ کونسل نے 2024 کے لیے منظور کیا ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ مالی بحران کے باوجود PCCC کی تحقیقی صلاحیتیں برقرار ہیں۔ پی سی سی سی کے علاؤہ کپاس کی تحقیق و ترقی پر کام کرنے والے دیگر صوبائی پبلک ادارے، نجی ادارے ، این جی اوز اور زرعی یونیورسٹیاں جنہیں مالی وسائل کی بھی کوئی کمی نہیں ہے ۔ یہ سب مل کر بھی ملک میں ایک کروڑ گانٹھ کپاس پیدا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کپاس کی موجودہ کمی اور گراوٹ کے لیے PCCC کو مورد الزام ٹھہرایا جا سکتا ہے؟ پی سی سی سی دیگر اداروں کا بوجھ کیوں اٹھائے ؟ جبکہ اس ادارے کو کئی سالوں سے مالی مشکلات کا سامنا ہے اور اسے کپاس کی تحقیق کا مکمل بوجھ اٹھانے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ مزید برآں، APTMA کی جانب سے سپریم کورٹ اور ECC کے فیصلوں کو نظرانداز کرتے ہوئے PCCC کو مفلوج کرنے کی کوششیں اس بات کی غمازی کرتی ہیں کہ APTMA نے پاکستان کی کپاس کی صنعت کو سنگین خطرات میں ڈال دیا ہے۔ اس کے برعکس بھارت میں کاٹن ریسرچ ادارے ان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کی بھرپور حمایت کے ساتھ کام کر رہے ہیں، جس کا نتیجہ ان کی کپاس کی پیداوار میں برتری کی صورت میں سامنے آیا ہے۔
اس پورے منظر نامے میں، یہ اہم ہے کہ APTMA اپنی قانونی اور اخلاقی ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے کاٹن سیس کی ادائیگی کرے اور PCCC کو وہ معاونت فراہم کی جائے جس کی اسے ضرورت ہے۔ کپاس کی بحالی اور ترقی کے لیے ضروری ہے کہ پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر کی مشترکہ کوششوں سے آگے بڑھا جائے۔ کپاس کی ویلیو چین کی مضبوطی کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کو ایک پلیٹ فارم پر آنا ہوگا، تاکہ ملکی معیشت کو استحکام ملے اور کپاس کی پیداوار میں نمایاں اضافہ ہو۔
ملک میں کپاس کی تنزلی پر ایک قومی کمیشن کا قیام بھی ناگزیر ہے تاکہ ذمہ داروں کا تعین کیا جا سکے اور ان کا احتساب کیا جائے، تاکہ مستقبل میں کپاس کی پیداوار میں کمی نہ ہو اور اس کی تحقیق اور ترقی کو فروغ دیا جا سکے