لیہ (نمائندہ لیہ ٹی وی)وفاقی و صوبائی حکومتوں کی جانب سے نئے مالی سال کے بجٹ کو حتمی شکل دینے کا عمل آخری مراحل میں داخل ہو چکا ہے، مگر ضلع لیہ کے عوام اس سوال میں الجھے ہوئے ہیں کہ آیا اس مرتبہ ان کے لیے کوئی میگا پراجیکٹ آئے گا یا نہیں؟ لیہ کو ترقی کے دھارے میں شامل کرنے کے لیے برسوں سے زیرِ التوا اہم منصوبے ایک بار پھر بجٹ فہرستوں کی نچلی سطور میں دب جانے کے خدشے کا شکار ہیں۔ضلع لیہ کے بڑے عوامی مطالبات میں لیہ کو ڈویژن کا درجہ دینا، میڈیکل اور انجینئرنگ کالجز کا قیام، لیہ تونسہ پل کی بحالی، سی پیک سے رابطے کے لیے سڑکوں کی تعمیر، تھل کینال کی ری ماڈلنگ، پینے کے صاف پانی کی فراہمی، نکاسی آب کے منصوبے، چوک اعظم اور کوٹ سلطان کو تحصیل کا درجہ دینا اور دریا سندھ کی ممکنہ تباہ کاریوں سے مستقل تحفظ شامل ہیں۔ ان تمام منصوبوں پر نہ صرف عوامی دباؤ بڑھ رہا ہے بلکہ میڈیا اور سول سوسائٹی بھی مسلسل آواز بلند کر رہی ہے۔تاہم زمینی حقیقت یہ ہے کہ اس وقت قومی اسمبلی میں لیہ سے تعلق رکھنے والے دونوں ارکان اور پنجاب اسمبلی کے چاروں ممبران اپوزیشن بینچوں پر بیٹھے ہیں، جبکہ واحد حکومتی اتحاد سے وابستہ ایم پی اے علی اصغر خان گرمانی نیب کیسز کے باعث سیاسی منظرنامے سے غائب ہیں۔ اس سیاسی تنہائی نے لیہ کو ایوانِ اقتدار میں مؤثر نمائندگی سے محروم کر رکھا ہے، جس کے سبب ضلع کے دیرینہ ترقیاتی مطالبات بجٹ میں شمولیت کے لیے سنجیدہ وکیلوں سے خالی نظر آ رہے ہیں۔ذرائع کے مطابق وفاقی و صوبائی بجٹ کی تشکیل کے دوران ضلعی انتظامیہ اور مقامی ذرائع ابلاغ کی جانب سے وقتاً فوقتاً حکومت کو قابلِ عمل تجاویز اور عوامی ضروریات سے آگاہ کیا جاتا رہا ہے، تاہم حتمی فیصلہ ہمیشہ سیاسی وزن اور مرکز میں موجود نمائندوں کی کاوشوں پر ہوتا ہے، جو بدقسمتی سے اس وقت لیہ کے حق میں نظر نہیں آتا۔ضلع بھر میں بجٹ سے متعلق ایک بے چینی کی فضا موجود ہے۔ عوام کا کہنا ہے کہ اگر اس بار بھی لیہ کو نظر انداز کیا گیا تو نہ صرف ترقی کی رفتار مزید سست ہو گی بلکہ پہلے سے محروم ضلع میں احساسِ محرومی میں خطرناک حد تک اضافہ ہو سکتا ہے۔ شہری حلقوں نے مطالبہ کیا ہے کہ وزیرِاعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب ذاتی دلچسپی لے کر لیہ جیسے پسماندہ ضلع کو بجٹ میں نمائندگی دیں تاکہ یہاں کے عوام بھی قومی دھارے میں شامل ہو سکیں۔


عبدالرحمن فریدی صاحب کی تحریر ضلع لیہ کی عوام کی حقیقی نمائندگی کرتی ہے اور یہی صحافت ہے کہ جب آپ اپنے علاقے کی پسماندگی کو اجاگر کرتے ہیں تو یقینا آپ عوام کی نمائندگی کررہے ہوتے ہیں