تحریر ؛ ساجد محمود
کبھی جنوبی پنجاب کی پہچان "کپاس کی وادی” کے نام سے ہوا کرتی تھی، جہاں تاحدِ نگاہ سفید پھول کھلتے تھے، جیسے زمین پر چاندنی بکھری ہو۔ یہ حسین نظارہ نہ صرف زراعت کی ترقی کا مظہر تھا بلکہ ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی بھی تھا۔ کسانوں کی محنت، کپاس کی گانٹھوں کی خوشبو، اور دھاگوں کی مضبوطی پاکستان کی شناخت کا حصہ تھی۔
آج یہ منظر دھندلا ہو چکا ہے۔ سفید سونا، جس نے پاکستان کو دنیا بھر میں نمایاں مقام دلایا، اب مٹی ہوتا جا رہا ہے۔ گنے اور چاول کی بے دریغ کاشت نے کپاس کی زمین کو نگل لیا ہے،پانی کے ضیاع اور گرتی ہوئی کپاس کی پیداوار نے ایک قومی بحران کو جنم دیا ہے۔
یہ وقت ہے کہ ہم کپاس کی اہمیت کو نہ صرف پہچانیں بلکہ اسے اپنی ترجیحات میں شامل کریں۔ جنوبی پنجاب کی زرخیز زمین کو دوبارہ "کپاس کی وادی” بنانا صرف خواب نہیں، بلکہ ایک قومی ضرورت ہے۔ کاٹن بیلٹ میں گنے اور چاول کی کاشت پر پابندی عائد کرنا، کپاس کی امدادی قیمت کا بروقت اعلان کرنا، اور ریسرچ و ڈیولپمنٹ پر سرمایہ کاری کو یقینی بنانا وہ اقدامات ہیں جو اس سفید سونے کو دوبارہ جگمگانے کا موقع دیں گے۔ کپاس صرف ایک فصل نہیں بلکہ ہماری معیشت، کسانوں کی امیدوں، اور قومی وقار کا استعارہ ہے۔ اگر ہم نے آج صحیح فیصلے نہ کیے، تو یہ سفید چاندنی ہمیشہ کے لیے دھندلا جائے گی، اور اس کے ساتھ وہ خواب بھی جو ایک خودکفیل اور مضبوط معیشت کا خاکہ پیش کرتے تھے۔ آئیں، اس زمین کو اس کی کھوئی ہوئی شان واپس دلائیں، کیونکہ یہ سفید سونا ہماری آنے والی نسلوں کی روشنی اور خوشحالی کا ضامن ہے۔