تحریر:ریاض جکھڑ
گزشتہ کئی روز سے یہ خبر گردش میں ہے کہ تحصیل چوبارہ کی رجسٹریشن برانچ میں چار سو کے لگ بھگ رجسٹریوں کا ریکارڈ، تھم رجسٹر، مہریں و دیگر متعلقہ ریکارڈ چوری کر لیا گیا یا دانستہ غائب کیا گیا اس کی چھان بین کے لیے مفصل انکوئری تو سامنے نہیں آئی لیکن فوری ایکشن کے طور پر سب رجسٹرار کی رپورٹ کی روشنی میں ڈپٹی کمشنر لیہ نے ایک اہلکار کو ملازمت سے برخاست کر دیا اس میں کئی سوال کھڑے ہو جاتے ہیں کہ نہ تو ریکارڈ برآمد ہوا نہ ان افراد کی قیمتی جائیدادیں جو انہوں نے ٹرانسفر کی تھیں ان کا سرکاری ریکارڈ کہاں گیا کیا متبادل ریکارڈ بنایا گیا اس تحصیلدار سے کیوں نہ پوچھا گیا کہ یہ ریکارڈ کہاں گیا ہے یہ برانچ صرف ایک اہلکار پر مشتمل نہیں ہوتی اس میں کئی محرر اور پرائیویٹ افراد کام کرتے ہیں انہیں اس لیے رکھا جاتا ہے کہ رشوت کا لین دین آسانی سے ہو سکے پھر تحصیلدار مقامی ڈومیسائل کا حامل حکمران طبقے سے تعلق رکھتا ہے اس نے بھی یہ نہیں دیکھا کہ کیا ریکارڈ محفوظ بھی کیا جا رہا ہے یا محفوظ ہاتھوں میں ہے یہاں کام کرنے والے مکمل دیانت داری سے کام کر رہے ہیں ایسا ہرگز نہیں کیا گیا بلکہ رجسٹری پاس کرتے وقت اپنی مبینہ رشوت لے لی گئی اور کروڑوں روپے کی جائیدادیں شہریوں کی داو پر لگ گئیں کہ جب وہ ریکارڈ طلب کریں گے تو کیا انہیں یہی انکوائری رپورٹ دکھا دی جائے گی صوبائی حکومت کی کتنی اعلی کارکردگی ہے کہ صرف ایک اہلکار کو ملازمت سے برخاست کر دیا گیا یہ اس تمام سانحے کا حل نہیں ہے یہ تو راستہ کھول رہا ہے کہ دیگر بھی ایسی برانچوں میں کسی بھی قسم کے گھپلے کر کے وہ کہہ دیں کہ ریکارڈ غائب ہو گیا ہے چوری کر لیا گیا ہے اس میں سفر تو وہ کاشتکار اور زمندار کرے گا جس کی جائیداد کا ریکارڈ غائب ہوگا کسی کو ملازمت سے باہر کرنا اس کی جائیداد کے کاغذات تو واپس نہیں لا سکتا اس میں مفصل انکویری کرائی جاتی جو دیگر بھی اس میں شامل ہوتے ہیں یہ اکیلے آدمی کا کبھی کام نہیں ہوتا یہ ایک منظم شعبہ ہے جس میں کئی ہاتھوں سے ہو کر رجسٹری تکمیل کے مراحل تک جاتی ہے ان سب کے بیانات لیے جاتے تب جا کر اس کے شفاف ہونے اور پھر جن کی رجسٹریاں غائب ہوئی ہیں ان کے لیے متبادل فوٹو سٹیٹ یا ان لوگوں کو سماعت کر کے جو ان کے پاس ریکارڈ ہے وہ رکھنے سے تکمیل ہوتی یہ بھی نہیں کیا گیا تو کیا آئندہ وہ شہری جن کی رجسٹریاں غائب ہوئی ہیں وہ عدالتوں کے سامنے کھڑے ہوں گے ان کا کیا قصور ہے کہ یہ کہہ دیا جائے کہ ایک ملازم کو نکال دیا گیا یہ کہاں کا انصاف ہے کہ جہاں سینکڑوں رجسٹریاں غائب ہوں اور ان سے متاثرہ ہزاروں افراد اپنا ریکارڈ ڈھونڈتے رہیں پھر ذمہ داری بھی ایک معمولی درجے کے کلرک پر جبکہ اس کا تمام تر ذمہ دار سب رجسٹرار ہوتا ہے جسے پوچھا تک نہیں گیا صوبائی حکومت اعلی سطحی انکوائری کے لیے بڑے افسران مقرر کرے تاکہ وہ رجسٹری دہندگان جن کی رجسٹریاں غائب ہوئی ہیں ان کا ریکارڈ واپس لایا جائے اور دیگر ذمہ داران کو بھی فکس کیا جائے تاکہ یہ راستہ ہمیشہ کے لیے بند ہو ورنہ ریکارڈ غائب کرنا جلا دینا یہ عام بن جائے گا اور وہ آدمی جو کروڑوں روپے کما چکا ہوگا اگر اسے ملازمت سے نکال بھی دیا جائے تو کوئی فرق نہیں پڑتا اس میں سفر کرنے والے معصوم شہری کاشتکار زمندار جو شدید متاثر ہوتے ہیں اور بعد میں عدالتوں کے ذریعے اپنا ریکارڈ بنواتے رہتے ہیں جو سالوں پر محیط ہوتا ہے کیونکہ تحصیل چوبارہ کہ کئی مواضعات ابھی بھی لٹیگیشن اور اشتعمال اراضی کے مراحل میں ہیں ان کی بھی رجسٹریاں ہوتی ہیں اس لیے اس ریکارڈ کو دوبارہ محفوظ کرنے کیونکہ اصل مرکز نگاہ ریکارڈ ہونا چاہیے باقی ذمہ داران اس کے ارد گرد گھومتے ہیں جب تک کاشتکاروں اور زمینداروں کی جائیدادوں کا تحفظ نہیں کیا جائے گا اس وقت تک تمام کاروائی بلاجواز اور بے سود ہے اس لیے اعلی سطحی ٹیم صوبائی حکومت مقرر کرے جو ریکارڈ کو سب سے پہلے دستیاب کرتے ہوئے یا متبادل ریکارڈ کے طور پر بنوا کر اس میں رکھا جائے تاکہ رجسٹریاں کرانے والے کسی قسم کی زحمت عدالتی چارہ جوئی باہمی جھگڑے سے محفوظ رہیں اور ان کی جائیدادوں کو بھی تحفظ حاصل ہو سرکار پر اعتماد کا بھی یہی تقاضہ ہے کہ ان کی تفصیلی انکوائری کی جائے اور اس کی روشنی میں ہی اقدامات اٹھاتے ہوئے سب سے پہلے متاثرین جن کا ریکارڈ غائب کیا گیا ہے وہ مہیا کیا جائے بعد میں دیگر عوامل ہیں جو اس کے ارد گرد گھومتے ہیں سب سے پہلے اولیت ریکارڈ کی دستیابی کو ممکن بنانا ہے ورنہ تمام انکوائریز پہ سود ہیں