layyah
جمعہ, دسمبر 5, 2025
  • صفحہ اول
  • لیہ
    • ادب
    • ثقافت
    • سیاست
  • پاکستان
  • بین الاقوامی
  • علاقائی خبریں
  • سائنس
  • کاروبار
  • فنون لطیفہ
  • صحت
  • وڈیوز
  • کالم
  • انٹرویو
  • زراعت
  • ستاروں کے احوال
  • شوبز
  • کھیل
  • صفحہ اول
  • لیہ
    • ادب
    • ثقافت
    • سیاست
  • پاکستان
  • بین الاقوامی
  • علاقائی خبریں
  • سائنس
  • کاروبار
  • فنون لطیفہ
  • صحت
  • وڈیوز
  • کالم
  • انٹرویو
  • زراعت
  • ستاروں کے احوال
  • شوبز
  • کھیل
layyah
No Result
View All Result

گداگری ،ایک معاشرتی ناسور

عبدالرحمن فریدی by عبدالرحمن فریدی
اکتوبر 10, 2025
in کالم
0

از قلم: حسنین سرور جکھڑ

نئی سوچ پاکستانی معاشرہ آج بے شمار چیلنجز کا سامنا کر رہا ہے ۔مہنگائی، بے روزگاری، کرپشن اور ناانصافی نے عام آدمی کی زندگی اجیرن بنا کر رکھ دی ہے مگر ان سب مسائل کے بیچ ایک ایسا مسئلہ ہے جو ہماری قومی غیرت، تہذیب اور اخلاقیات کو جڑ سے کھوکھلا کر رہا ہے۔۔۔۔اور وہ ہے "گداگری”۔ یہ مسئلہ محض غربت کی نشانی نہیں بلکہ ہمارے معاشرتی اجتماعی زوال اور حکومتی ناکامی کی عکاسی بھی ہے۔اگر آپ کسی بڑے شہر کی سڑک پر چند منٹ گزاریں تو آپ کو یہ حقیقت پوری شدت کے ساتھ محسوس ہوگی ٹریفک سگنل پر کھڑی گاڑی کے شیشے پر دستک ہوتی ہے ایک عورت گود میں بچے کو لیے دعائیں دیتی ہے، دوسرا شخص مصنوعی معذوری کے بہانے ترس کا طلبگار بنتا ہ یہ سلسلہ صرف ایک دو افراد تک محدود نہیں بلکہ ہر چوراہے پر درجنوں ایسے مناظر موجود ہیں یہ دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ گداگری کس قدر پھیل چکی ہے اور یہ کس تیزی سے ہماری شناخت بن رہی ۔۔۔۔۔۔ماضی میں بھیک مانگنا صرف ان لوگوں کا عمل سمجھا جاتا تھا جو حقیقتاً مجبور ہوتے تھے لیکن آج حالات بالکل مختلف ہیں اب یہ ایک منظم کاروبار کی شکل اختیار کر چکا ہے کئی گروہ ہیں جو بچوں کو اغواء يا ان کی مجبوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سڑکوں پر بٹھا دیتے ہیں کچھ لوگ معذوری کا ڈرامہ کرتے ہیں بعض خواتین جعلی آنسو بہا کر ہمدردیاں بٹورتی ہیں یہاں تک کہ بچوں کو جان بوجھ کر گندا رکھا جاتا ہے تاکہ لوگوں کو جذباتی بنایا جائے یہ محض انفرادی سطح پر نہیں بلکہ اس کے پیچھے پورا نیٹ ورک ہوتا ہے ایسے گروہ روزانہ ہزاروں روپے کماتے ہیں اور ان کے سرپرست اکثر وہی بااثر لوگ ہوتے ہیں جنہیں قانون ہاتھ نہیں لگا سکتا یوں ایک طرف محنت کش طبقہ پیسہ کمانے کے لیے پسینے میں شرابور ہوتا ہے، جبکہ دوسری طرف گداگر بغیر محنت کے بھاری رقوم اکٹھا کر لیتے ہیںیہ بات انتہائی افسوسناک ہے کہ گداگری اب ہماری پہچان بنتی جارہی ہے جب کوئی غیرملکی پاکستان آتا ہے تو اسے سب سے پہلے یہی منظر دیکھنے کو ملتا ہے بس اڈے، ریلوے اسٹیشن، ایئرپورٹ اور بازار سب جگہ یہ بھیڑ نظر آتی ہے وہ سیاح جو ہماری ثقافت، تاریخ اور مہمان نوازی دیکھنے آتا ہے وہ ہمارے گداگروں کی یلغار کو دیکھ کر بدگمان ہو کر لوٹ جاتا ہےکیا یہ وہ شناخت ہے جس پر ہمیں فخر ہونا چاہیے؟؟ہمارا دین اسلام محنت کو عزت بخشتا ہے قرآن و حدیث میں بارہا اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ ہاتھ پھیلانے کے بجائے محنت کر کے کمانا زیادہ افضل ہے۔۔۔۔۔ لیکن ہم نے ان تعلیمات کو پس پشت ڈال دیا ہے آج ہمارے معاشرے میں یہ تصور بن گیا ہے کہ بھیک دینا ثواب ہے چاہے دینے والا یہ جانے کہ لینے والا حقیقتاً مستحق بھی ہے یا نہیں۔ اس سوچ نے گداگری کو مزید بڑھا دیا ہے۔۔۔۔۔ یہ مسئلہ صرف حکومت یا صرف عوام کے بس کا نہیں یہ دونوں کی مشترکہ ذمہ داری اور نا اہلی ہے ۔۔۔۔ریاست کو چاہیے کہ وہ گداگروں کے منظم گروہوں کے خلاف سخت کارروائی کرے ان نیٹ ورکس کو ختم کیے بغیر یہ مسئلہ کبھی حل نہیں ہوسکتا ساتھ ہی ساتھ بے روزگار افراد کے لیے ہنر سکھانے کے مراکز قائم کیے جائیں فلاحی اداروں کو فعال بنایا جائے اور ہر شہری کو کم از کم روزگار فراہم کیا جائے ہمیں اپنی سوچ بدلنی ہوگی ہمیں ہر سڑک پر بھیک دینے کے بجائے اصل مستحقین تک امداد پہنچانی چاہیے اگر ہم یہ اصول اپنا لیں کہ سڑک پر بھیک نہیں دیں گے بلکہ صرف مستند اداروں کو عطیہ دیں گے تو آدھی گداگری خودبخود ختم ہو جائے گی۔۔۔۔۔۔ گداگری صرف فوری معاشی مسئلہ نہیں بلکہ آنے والی نسلوں کے اخلاق و کردار کا بھی سوال ہے بچے جب دیکھتے ہیں کہ ان کے والدین بھیک مانگ کر زندگی گزار رہے ہیں تو وہ بھی یہی راستہ اختیار کرتے ہیں یوں یہ سلسلہ نسل در نسل چلتا ہے اور محنت کی عادت ہمیشہ کے لیے مر جاتی ہے اس سے معاشرے میں ایک ایسا طبقہ پیدا ہوتا ہے جو عزتِ نفس، غیرت اور محنت سے کوسوں دور ہوتا ھے۔۔۔ یہ بات حقیقت ہے کہ گداگری ایک معاشرتی ناسور ھے یہ ہماری معیشت کو کمزور کر رہی ھے ہماری اخلاقیات کو کھوکھلا بنا رہی ھے اور ہماری قومی شناخت کو داغدار کر رہی ھے اب وقت آ گیا ھے کہ ہم بحیثیت قوم فیصلہ کریں کہ ہم کس سمت جانا چاہتے ہیں۔اگر ہم نے بروقت اقدامات نہ کیے تو آنے والی نسلیں ہمیں کوسیں گی کہ ہم نے ان کے لیے ایک ایسا معاشرہ چھوڑا جہاں ہاتھ پھیلانا عام اور عزت کے ساتھ جینا مشکل تھایاد رکھیں! گداگری پر ترس کھانے کے بجائے اسے ختم کرنا ہی اصل ہمدردی ہے۔

Tags: inter national newsislamabad newslahore newslayyah newslayyah tvmultan newsnational english newsNational Newsnational urdu newspakistan news
Previous Post

ضلع لیہ میں انسدادِ پولیو مہم 13 اکتوبر سے شروع ہوگی، تمام انتظامات مکمل ،ڈپٹی کمشنر امیرا بیدار کی زیر صدارت اجلاس، 4 لاکھ سے زائد بچوں کو پولیو ویکسین اور وٹامن اے کی خوراک دینے کا ہدف مقرر

Next Post

لیہ میں انٹرنیشنل مینٹل ہیلتھ ڈے پر تقریب، ذہنی صحت کی اہمیت اجاگر، ڈپٹی کمشنر، ماہرینِ نفسیات اور سماجی شخصیات کی شرکت؛ ذہنی صحت سے متعلق منفی تصورات کے خاتمے اور آگاہی مہم پر زور

Next Post
لیہ میں انٹرنیشنل مینٹل ہیلتھ ڈے پر تقریب، ذہنی صحت کی اہمیت اجاگر، ڈپٹی کمشنر، ماہرینِ نفسیات اور سماجی شخصیات کی شرکت؛ ذہنی صحت سے متعلق منفی تصورات کے خاتمے اور آگاہی مہم پر زور

لیہ میں انٹرنیشنل مینٹل ہیلتھ ڈے پر تقریب، ذہنی صحت کی اہمیت اجاگر، ڈپٹی کمشنر، ماہرینِ نفسیات اور سماجی شخصیات کی شرکت؛ ذہنی صحت سے متعلق منفی تصورات کے خاتمے اور آگاہی مہم پر زور

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں © 2024

No Result
View All Result
  • صفحہ اول
  • لیہ
    • ادب
    • ثقافت
    • سیاست
  • پاکستان
  • بین الاقوامی
  • علاقائی خبریں
  • سائنس
  • کاروبار
  • فنون لطیفہ
  • صحت
  • وڈیوز
  • کالم
  • انٹرویو
  • زراعت
  • ستاروں کے احوال
  • شوبز
  • کھیل

تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں © 2024