تحریر: ثاقب عبداللہ نظامی
صحافت اور پولیس، دونوں ایک معاشرے کے وہ کردار ہیں جن سے عوام کو سچ اور تحفظ کی امید ہوتی ہے، ایک قلم سے سچ لکھتا ہے اور دوسرا قانون سے انصاف کرتا ہے، لیکن ان دونوں کا آپس کا رشتہ اکثر الجھا ہوا بھی ہوتا ہے اور کبھی بڑا ہم آہنگ بھی، میں نے خود دیکھا ہے کہ جب کوئی حادثہ ہو یا جرم کا واقعہ ہو تو وہاں ایک طرف پولیس موجود ہوتی ہے اور دوسری طرف کیمرے اور مائیک لیے صحافی، دونوں اپنی اپنی ڈیوٹی پر ہوتے ہیں مگر کئی بار ایک دوسرے سے ٹکرا بھی جاتے ہیں، اصل بات یہ ہے کہ دونوں ادارے عوام کے لیے کام کرتے ہیں، صحافی عوام کی آنکھ اور زبان ہے جبکہ پولیس عوام کی حفاظت اور قانون کی پاسداری کی ذمہ دار، مگر جب ایک کی زبان دوسرے کی راہ میں رکاوٹ بن جائے یا ایک کی وردی دوسرے کی آزادی کو دبانے لگے تو مسئلہ پیدا ہوتا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ پولیس اور صحافی اگر ایک دوسرے کو حریف کے بجائے شریک سمجھیں تو نہ صرف کام آسان ہو جائے گا بلکہ عوام کو بھی فائدہ ہوگا، صحافی کا فرض ہے کہ وہ خبر دے، لیکن سچائی پر مبنی، اور پولیس کا کام ہے کہ وہ تحقیق کرے، لیکن انصاف کے ساتھ، جب دونوں اپنی حدود میں رہیں تو مسائل نہیں ہوتے، لیکن جب کوئی صحافی پولیس پر بے بنیاد الزام لگاتا ہے یا پولیس صحافیوں کو دھمکاتی ہے تو بات بگڑ جاتی ہے، میں نے کئی بار دیکھا ہے کہ کچھ اہلکار صحافیوں کو دشمن سمجھ بیٹھتے ہیں، جبکہ بعض صحافی پولیس کے ہر قدم کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں، یہ رویے نہ عوام کے لیے اچھے ہیں، نہ اداروں کے لیے، اس لیے میرا ماننا ہے کہ صحافی اور پولیس دونوں کو ایک دوسرے کی مشکلات کو سمجھنا چاہیے، پولیس کے پاس ہر وقت مکمل معلومات نہیں ہوتیں، وہ بھی دباؤ میں ہوتے ہیں، اور صحافی کے پاس ہر بات کا وقت نہیں ہوتا، اس پر بھی خبر کی دوڑ کا بوجھ ہوتا ہے، ایسے میں اگر دونوں ایک دوسرے کو سمجھیں، برداشت کریں اور اگر غلطی ہو بھی جائے تو الزام تراشی کے بجائے بات چیت سے سلجھائیں، تو حالات بہتر ہو سکتے ہیں، مجھے لگتا ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم ان دو اداروں کے بیچ اعتماد کا پل بنائیں، کیونکہ جب تک قلم اور قانون ایک ساتھ نہیں چلیں گے، نہ سچ مکمل ہوگا، نہ انصاف، اور نہ ہی معاشرہ آگے بڑھے گا، ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ ہم ایک دوسرے کے مخالف نہیں، بلکہ ایک ہی مقصد کے ساتھی ہیں، وہ مقصد ہے سچ، امن اور انصاف ۔..
