تحریر :عبدالرحمن فریدی
23 جنوری کو قومی اسمبلی نے الیکٹرانک جرائم کی روک تھام کے بل، یعنی ”پیکا ایکٹ“ کی منظوری دی۔ حکومت کے مطابق، اس قانون کا مقصد سوشل میڈیا انفلوئنسرز، یوٹیوبرز، اور ڈیجیٹل میڈیا کو ریگولیٹ کرنا ہے۔ تاہم، صحافتی تنظیموں اور اپوزیشن نے اس قانون کو ”کالا قانون“ قرار دیتے ہوئے اس پر سخت تنقید کی ہے، اور اسے آزادی اظہارِ رائے اور میڈیا پر حملہ سمجھا ہے۔ پیکا ایکٹ ترمیمی بل میں نئی ریگولیٹری اتھارٹی، ٹربیونلز، اور تحقیقاتی ایجنسی کے قیام سمیت غیر قانونی مواد اور اس کے خلاف کارروائی کا طریقۂ کار واضح کیا گیا ہے۔
بل کے مطابق، درج ذیل مواد غیر قانونی قرار دیا گیا ہے:
- نظریہ پاکستان کے خلاف مواد
- قانون ہاتھ میں لینے کے لیے اشتعال دلانے والا مواد
- عوام، افراد، گروہوں، یا سرکاری افسران کو خوف زدہ کرنے یا نقصان پہنچانے والا مواد
- نفرت انگیز اور فرقہ واریت پر مبنی مواد
- فحاشی یا توہین آمیز مواد
- عدلیہ، مسلح افواج، اور ریاستی اداروں کے خلاف شکوک و شبہات پیدا کرنے والا مواد
- دہشت گردی یا پرتشدد کارروائیوں کی حوصلہ افزائی کرنے والا مواد
- کلعدم تنظیموں کے بیانات یا سرگرمیاں نشر کرنا
ہر وہ شخص جو جان بوجھ کر جھوٹی خبر یا معلومات پھیلائے، جس سے خوف و ہراس، افرا تفری، یا عوام میں انتشار پیدا ہو، اس کے لیے درج ذیل سزائیں تجویز کی گئی ہیں: - 3 سال قید
- 20 لاکھ روپے جرمانہ
- یا دونوں سزائیں ایک ساتھ دی جا سکتی ہیں۔
پیکا ایکٹ کے تحت “سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی” قائم کی جائے گی، جس کا مرکزی دفتر اسلام آباد میں ہوگا اور صوبائی دارالحکومتوں میں بھی دفاتر ہوں گے۔
اس بل میں اتھارٹی کویہ اختیارات اور ذمہ داریاںسونپی گئی ہیں
- لوگوں کی آن لائن سیفٹی کو یقینی بنانا۔
- غیر قانونی مواد کو ریگولیٹ کرنا اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو رجسٹر، معطل، یا بلاک کرنا۔
- مواد بلاک کرنے کی ہدایات دینا اور معیار مقرر کرنا۔
- خلاف ورزی کی صورت میں جرمانے تجویز کرنا۔
- بین الاقوامی ایجنسیز کے ساتھ تعاون اور انفارمیشن شیئرنگ۔
اس بل کے مطابق سوشل میڈیا کمپلینٹ کونسلبنائی جائے گی
یہ کونسل شکایات وصول کرے گی اور درخواستوں کو پراسیس کرے گی۔ اس میں چیئرمین اور 4 ممبران شامل ہوں گے۔
وفاقی حکومت اس قانون کے تحت “سوشل میڈیا پروٹیکشن ٹربیونل” قائم کرے گی، جو 90 دن کے اندر کیسز کے فیصلے کرے گا۔
بل کے مطابق ٹربیونل کا دائرہ کارکچھ یوں ہوگا
- ریگولیٹری اتھارٹی کے فیصلے کے خلاف اپیلیں سننا۔
- سپریم کورٹ میں 60 دن کے اندر فیصلے کے خلاف اپیل کا حق۔
بل کے تحت “نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی” قائم کی جائے گی، جو انویسٹی گیشن اور پراسیکیوشن کے معاملات دیکھے گی۔ ایف آئی اے کا سائبر کرائم ونگ ختم کر دیا جائے گا، اور تمام کیسز، انکوائریز، اور اثاثے نئی ایجنسی کو منتقل کر دیے جائیں گے۔
اگر اس بل کے اہم نکات پر نظر دوڑائیں تو اس میں 4اہم باتیں شامل ہیں
- جھوٹی خبر ہٹانے کی درخواست 24 گھنٹوں کے اندر دینی ہوگی۔
- ریگولیٹری اتھارٹی 8 ممبران پر مشتمل ہوگی، جن میں سیکرٹری داخلہ، چیئرمین پیمرا، اور چیئرمین پی ٹی اے شامل ہوں گے۔
- اتھارٹی کو نیک نیتی سے کیے گئے اقدامات پر قانونی استثنیٰ حاصل ہوگا۔
- اتھارٹی سالانہ رپورٹ پارلیمنٹ میں پیش کرے گی۔
صحافتی تنظیموں اور اپوزیشن کا کہنا ہے کہ یہ قانون آزادی اظہارِ رائے کو محدود کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔ خاص طور پر، ریاستی اداروں پر تنقید کرنے والوں کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ ناقدین کے مطابق، اس قانون کے تحت جھوٹی خبر کے دائرہ کار میں ہر طرح کی رائے شامل کی جا سکتی ہے، جس سے اختلافِ رائے کو دبایا جا سکتا ہے۔
حکومت کا دعویٰ ہے کہ پیکا ایکٹ عوام کی آن لائن حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے۔ حکومت کے مطابق، یہ قانون جھوٹی خبروں کے ذریعے پھیلنے والے انتشار کو روکنے اور ڈیجیٹل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے میں اہم کردار ادا کرے گا۔
پیکا ایکٹ کی منظوری نے ملک میں آزادی اظہارِ رائے اور ڈیجیٹل حقوق کے حوالے سے نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ یہ دیکھنا باقی ہے کہ اس قانون پر عمل درآمد کس حد تک متوازن ہوگا اور کیا حکومت اس قانون کو شفافیت کے ساتھ نافذ کر سکے گی یا نہیں۔