نیویارک (نیوز ڈیسک)پاکستانی نژاد امریکی خاتون جج لورین علی خان نے امریکی عدالتی تاریخ میں ایک اہم مثال قائم کرتے ہوئے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایگزیکٹو آرڈر پر عملدرآمد کو عارضی طور پر روک دیا۔ واشنگٹن میں وفاقی ڈسٹرکٹ جج کے عہدے پر فائز 41 سالہ جج لورین علی خان نے امریکا کی نان پرافٹ تنظیموں کی نیشنل کونسل اور پبلک ہیلتھ آرگنائزیشن کی درخواست پر عارضی "ایڈمنسٹریٹو اسٹے” جاری کر دیا۔ یہ فیصلہ اس وقت سامنے آیا جب اربوں ڈالرز کے فنڈز منجمد کیے جانے والے تھے، تاہم عین وقت پر جج نے حکم جاری کر کے اس پر عملدرآمد معطل کر دیا۔ یہ مقدمہ 22 ریاستوں اور ڈسٹرکٹ آف کولمبیا کے ڈیموکریٹک اٹارنی جنرلز نے دائر کیا تھا، جنہوں نے ٹرمپ انتظامیہ کے فیصلے کو غیر قانونی قرار دیا۔ ٹرمپ انتظامیہ نے عدالت میں پیشی سے قبل ہی حکم نامہ منسوخ کر دیا، جبکہ ریپبلکنز نے اس اقدام کو ٹرمپ کے بجٹ کنٹرول منصوبے کا حصہ قرار دیا ہے۔ امریکی محکمہ انصاف کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ فنڈز کی منجمدی کو روکنا ضروری نہیں، تاہم جج علی خان نے سوال اٹھایا کہ حکومتی فیصلے سے کتنے پروگرام متاثر ہو سکتے ہیں۔ جج لورین علی خان کے والد ڈاکٹر محمود علی خان امریکی فوج میں خدمات انجام دے چکے ہیں، جبکہ ان کی والدہ لنڈا امریکی فوج میں بطور نرس کام کر چکی ہیں۔ ان کے فیصلے کو امریکی میڈیا میں بڑی اہمیت دی جا رہی ہے اور مختلف حلقوں میں اس پر تبصرے جاری ہیں۔ کیس کی آئندہ سماعت 3 فروری کو ہوگی۔