تحریر: ساجد محمود
چاول اور گنے کی کاشت کے حوالے سے اسپیکر پنجاب اسمبلی محمد احمد خان کے حالیہ ریمارکس ایک انتہائی اہم اور دور اندیشانہ اقدام ہیں، جس کا مقصد پنجاب میں زرعی وسائل کو مؤثر انداز میں استعمال کرتے ہوئے معیشت کو مضبوط بنانا ہے۔ چاول اور گنے کی کاشت میں بے تحاشا پانی استعمال ہوتا ہے، جس سے پانی کی قلت کا مسئلہ شدت اختیار کر رہا ہے۔ عالمی اداروں کے اعداد و شمار کے مطابق، ایک کلو چاول اگانے کے لیے تقریباً 3000 لیٹر پانی درکار ہوتا ہے جبکہ ایک کلو گنے کے لیے 1500 سے 2000 لیٹر پانی درکار ہوتا ہے۔ ایسے حالات میں چاول اور گنے کی بجائے ایسی فصلات کو ترجیح دینا دانشمندی ہے جو کم پانی سے بہتر نتائج فراہم کر سکیں۔
اسپیکر نے کسانوں کو کپاس کی جانب راغب کرنے کا مشورہ دیا ہے، جو کہ ایک انقلابی فیصلہ ثابت ہو سکتا ہے۔ کپاس نہ صرف پاکستان کی زرعی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے بلکہ اس سے وابستہ ٹیکسٹائل صنعت کو خام مال بھی فراہم کرتی ہے۔ پنجاب کے جنوبی علاقوں، جیسے کہ رحیم یار خان اور ڈی جی خان میں بھی گنے کی کاشت کی جا رہی ہے، جہاں کبھی کپاس کی پیداوار ہوتی تھی۔ یہاں گنے کی کاشت کو بڑھانے سے کپاس کی کاشت کے روایتی علاقوں میں پانی کی ضرورت اور قلت کی مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے۔
پنجاب میں کپاس کے روایتی علاقوں کو پانی کی زیادہ ضرورت والی فصلات، جیسے کہ گنے، سے محفوظ رکھنے سے نہ صرف کپاس کی پیداوار میں بہتری آئے گی بلکہ ٹیکسٹائل سیکٹر کے لیے بھی استحکام پیدا ہوگا۔ یہ اقدامات پانی کی بچت اور زراعت میں ترقی کے ضمن میں سنگ میل ثابت ہو سکتے ہیں۔ ایک دانشمندانہ زرعی پالیسی کے ذریعے نہ صرف پانی جیسے قیمتی وسائل کا تحفظ ممکن ہوگا بلکہ کپاس جیسی برآمدی اہمیت کی حامل فصل میں بھی اضافہ ہوگا۔ یہ قدم پاکستان کے زرعی اور معاشی استحکام کے لیے ایک عملی اور نتیجہ خیز حکمت عملی کی نمائندگی کرتا ہے جس سے ملک میں زراعت کے شعبے کو مزید تقویت ملے گی اور عالمی منڈی میں پاکستانی کپاس کی طلب کو پورا کرنے میں مدد ملے گی۔
یہ فیصلہ بلاشبہ قومی مفادات کے عین مطابق ہے اور زرعی زمینوں کے بہترین استعمال کی طرف ایک مثبت قدم ہے، جس سے مستقبل میں ملکی زراعت میں خوشحالی اور استحکام کے مواقع بڑھیں گے۔