متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ
ہر سال جب ماہِ رجب آتا ہے تو دل میں ایک خاص کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وقت ہمیں آہستہ آہستہ رمضان کی دہلیز تک لے جا رہا ہو۔ فضا میں ایک روحانی سی خاموشی، دل میں ایک انجانا سا احساس، اور ضمیر میں ہلکی ہلکی سی دستک سنائی دیتی ہے کہ اب سنبھل جاؤ، اب پلٹ آؤ، اب خود کو درست کر لو۔
مگر افسوس کہ اسی مقدس مہینے کے آتے ہی ہمارے معاشرے میں دو انتہائیں بھی واضح ہو جاتی ہیں۔ ایک طرف وہ لوگ ہیں جو دین میں اتنا آگے بڑھ جاتے ہیں کہ شریعت کی حدیں پیچھے رہ جاتی ہیں، اور دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو اس مہینے کی حرمت اور پیغام کو ہی نظرانداز کر دیتے ہیں۔ یہی دو رویے دراصل افراط اور تفریط کہلاتے ہیں، اور یہی وہ فکری عدم توازن ہے جس نے ہماری دینی زندگی کو الجھا دیا ہے۔
دین کا حسن؛ اعتدال:
اسلام کا سب سے بڑا حسن اس کا اعتدال ہے۔ یہ دین انسان کی فطرت کے عین مطابق ہے۔ نہ یہ انسان کو فرشتہ بنانا چاہتا ہے اور نہ حیوان۔ یہ ہمیں زمین پر رہتے ہوئے آسمان سے جوڑتا ہے، مگر ایسے طریقے سے کہ زندگی بوجھ نہ بنے۔ماہِ رجب اسی اعتدال کا امتحان ہے۔ یہ مہینہ نہ تو رمضان ہے کہ اس میں فرض روزے ہوں، نہ ہی عام مہینہ ہے کہ اس کی کوئی خاص حیثیت نہ ہو۔ یہ ایک حرمت والا مہینہ ہے، ایک یاد دہانی ہے، ایک موقع ہےلیکن حکم نہیں، جبر نہیں۔
افراط: نیکی کے نام پر زیادتی:
افراط بظاہر بہت خوبصورت لگتا ہے۔ نیت اچھی ہوتی ہے، جذبہ بھی خالص محسوس ہوتا ہے، مگر مسئلہ طریقے کا ہوتا ہے۔ جب ہم دین میں وہ چیزیں شامل کر لیتے ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں، تو ہم نادانستہ طور پر دین پر بوجھ ڈال دیتے ہیں۔ماہِ رجب میں کچھ لوگ مخصوص دنوں کے روزوں کو لازم سمجھ لیتے ہیں، کچھ خاص نمازوں کو نجات کا ذریعہ بنا لیتے ہیں، اور کچھ ایسی محفلیں اور رسومات ایجاد کر لیتے ہیں جن کا دین سے کوئی واضح تعلق نہیں ہوتا۔ یہ سب کچھ اکثر اس یقین کے ساتھ کیا جاتا ہے کہ شاید اس سے اللہ زیادہ راضی ہو جائے گا۔مگر سچ یہ ہے کہ اللہ کو وہ عبادت پسند ہے جو اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کے مطابق ہو۔ نیکی اگر سنت کے دائرے سے باہر نکل جائے تو وہ نیکی نہیں رہتی، چاہے نیت کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہو۔
تفریط؛ غفلت اور لاپروائی:
دوسری طرف ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو یہ کہہ کر بری الذمہ ہو جاتا ہے کہ چونکہ رجب میں کوئی خاص عبادت ثابت نہیں، اس لیے اس مہینے کی کوئی اہمیت ہی نہیں۔ یہ سوچ بھی خطرناک ہے۔حرمت والے مہینے ہمیں یہ یاد دلاتے ہیں کہ گناہ ہر وقت بُرے ہوتے ہیں، مگر کچھ اوقات میں ان کی سنگینی اور بڑھ جاتی ہے۔ رجب میں لاپرواہی برتنا، گناہوں کو معمولی سمجھنا، اور روحانی تیاری کو مؤخر کرنا دراصل دل کی سختی کی علامت ہے۔یہ وہ تفریط ہے جس میں انسان دین کو صرف رسموں تک محدود کر دیتا ہے اور روح کو نظرانداز کر دیتا ہے۔
ہمیں کیا کرنا چاہیے؟
اگر ہم سچائی سے اپنے دل سے سوال کریں تو جواب بہت سادہ ہے۔ ہمیں نہ تو دین میں نئی راہیں ایجاد کرنی ہیں اور نہ ہی دی ہوئی راہوں کو چھوڑنا ہے۔ماہِ رجب ہمیں یہ دعوت دیتا ہے:ہم اپنے گناہوں پر شرمندہ ہوں،ہم اپنی نمازوں پر نظر ڈالیں،ہم اپنے معاملات درست کریں،ہم اپنے دلوں کو کینہ، حسد اور نفرت سے پاک کریں۔یہ سب کام نہ کسی خاص دن کے محتاج ہیں، نہ کسی خاص رسم کے۔ یہ اصل عبادت ہے، یہی دین کی روح ہے۔
واقعۂ معراج: پیغام یا رسم؟
ماہِ رجب کے ساتھ واقعۂ معراج کا ذکر آتا ہے تو دل عقیدت سے بھر جاتا ہے۔ یہ وہ رات ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آسمانوں کی سیر کرائی گئی اور نماز جیسا عظیم تحفہ عطا ہوا۔مگر یہاں بھی ہم دو انتہاؤں میں بٹ جاتے ہیں۔ کچھ لوگ اس واقعے کو محض ایک رسم یا جشن بنا لیتے ہیں، اور کچھ لوگ اسے صرف ایک تاریخی واقعہ کہہ کر گزر جاتے ہیں۔اصل بات یہ ہے کہ معراج ہمیں نماز کی قدر، اطاعتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اہمیت، اور ایمان بالغیب کا سبق دیتی ہے۔ اگر معراج ہمیں نماز سے جوڑ دے، تو یہی اس کا سب سے بڑا پیغام ہے۔
رمضان کی خاموش تیاری:
رجب دراصل ایک خاموش تربیت ہے۔ کوئی اعلان نہیں، کوئی شور نہیں، کوئی پابندی نہیں ۔بس ایک موقع ہے۔ یہ مہینہ ہمیں بتاتا ہے کہ اگر ہم چاہیں تو ابھی سے خود کو سنوار سکتے ہیں۔جو شخص رجب میں اپنی زندگی کے بکھرے ہوئے پہلو سمیٹ لیتا ہے، اس کے لیے رمضان ایک بوجھ نہیں بلکہ رحمت بن جاتا ہے۔
افراط و تفریط کا انجام:
افراط دین کو مشکل بنا دیتا ہے، اور تفریط دین کو بے اثر۔ دونوں صورتوں میں نقصان ہمارا ہی ہوتا ہے۔ نہ دل کو سکون ملتا ہے، نہ عمل میں استقامت آتی ہے۔ہمیں سوچنا ہوگا کہ کیا ہم واقعی دین کو سمجھ رہے ہیں یا صرف جذبات اور ردِعمل کے تحت چل رہے ہیں؟ماہِ رجب ہمیں چیخ چیخ کر نہیں، بلکہ آہستہ آہستہ یہ پیغام دیتا ہے کہ دین میں خوبصورتی توازن میں ہے۔ نہ ہر نئی بات عبادت ہے، نہ ہر خاموشی دانائی۔آئیے اس رجب میں یہ عہد کریں:ہم بدعت سے بچیں گے،،ہم غفلت سے نکلیں گے،ہم سنت کو مضبوطی سے تھامیں گےکیونکہ یہی راستہ دل کو بھی زندہ رکھتا ہے، اور دین کو بھی مَحفوظ۔

