تحریر:سید انورشاہ (کوئٹہ)
قیام پاکستان کے بعد اس ملک کو اس کے نظریے کے مطابق ایک آئین کی ضرورت تھی ،جس کے نہ بننے کی وجہ سے ملک اس ٹرین کی مانند ہو گئے جو بغیر ٹریک کے چلتی رہی ۔ایسے میں ریاست کے سب سے اہم ادارے سپریم کورڈ کا اگر 1955 سے لے کر آج تک بطور ادارہ جائزہ لیا جائے تو اس کے اکثر فیصلوں سے جمہوریت اور پارلیمنٹ کی کوئی خاص خدمت نہیں ہوسکی۔ سچ تو یہ ہے کہ ان تمام فیصلوں میں نظریہ ضرورت کی وجہ سے نظامِ جمہور، نظام عدل، ملک اور سماج پر منفی اثرات مرتب کیے۔اس دوران عدالتوں نے ہر طالع آزما آمر کا ساتھ دیا اور منتخب وزیراعظم سے اچھے انداز میں پیش نہیں آئیں۔ اس کی چند اہم مثالیں مولوی تمیز الدین کیس، دوسو کیس، نصرت بھٹو کیس، ذوالفقار علی بھٹوکیس، اسد علی کیس، ظفر علی شاہ کیس، اقبال ٹکا کیس، یوسف رضا گیلانی اور نواز شریف کی نااہلی کے مقدمات کے ساتھ منتخب سیاسی حکومتوں کو گرانے والی مقتدرہ کے حق میں دئیے گئے، سپریم کورٹ کے متعدد مقدمات ہیں جن سے ملکی نظام شدید متاثر ہوا ہے۔تاہم ایسے میں گزشتہ روز کوئٹہ میں پیدا ہونے والے قاضی فائز عیسی جس نے ابتدائی تعلیم جنوبی پشتونخوا کے مرکزکوئٹہ اور پھر کراچی سے حاصل کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے منصب سے تاریخ ساز کارناموں کے ساتھ ریٹائرڈ ہو گئے ۔ کارپوریٹ سیکٹر کے بہترین وکیل کی پہچان رکھنے والے وکیل قاضی فائز عیسی ان ججوں کے سامنے پیش نہیں ہوئے جنہوں نے تین نومبر 2007 کی ایمرجنسی کے تحت حلف اٹھایا تھا۔سپریم کورٹ نے جب 31 جولائی 2009 کو اپنے ایک فیصلے میں تین نومبر 2007 کی ایمرجنسی کو غیر قانونی قرار دیا ،تو بلوچستان ہائی کورٹ کے تمام جج مستعفی ہو گئے۔ان حالات میں جسٹس فائز عیسی کو بلا کر انہیں بلوچستان میں کام کرنے کے لیے کہا گیا، پانچ اگست 2009 کو چیف جسٹس بلوچستان کے عہدے پر برائے راست تعینات ہوئے ۔ بلوچستان ہائیکورٹ میں بطور چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے تربت اور سبی میں ہائیکورٹس بینچز کو فعال کیا وہاں کئی آئینی درخواستوں پر اہم فیصلے دئیے۔ جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے خلاف اکبر بگٹی کے قتل کا مقدمہ انسداد دہشتگردی کوئٹہ میں زیرِ سماعت تھا۔ پرویز مشرف نے بلوچستان ہائیکورٹ میں مقدمے کی اسلام آباد عدالت منتقلی کی درخواست کی لیکن جسٹس قاضی فائز عیسی نے درخواست مسترد کرتے ہوئے فیصلہ دیا کہ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کو بھی زیرِ سماعت مقدمہ کسی اور صوبے میں منتقل کرنے کا اختیار نہیں۔اس فیصلے میں انہوں نے لکھا کہ پرویز مشرف پر راولپنڈی میں بھی حملہ ہو چکا ہے اس لیے یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ یہاں بھی ملزم کو تحفظ فراہم کرے۔اسی طرح 2011 میں جسٹس قاضی فائز عیسی نے مستونگ ضلع میں 26 بس مسافروں کے بہیمانہ قتل کے واقعے پر بطور چیف جسٹس ہائیکورٹ رجسٹرار کے ایک نوٹ پر ازخود نوٹس لے کر وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو واقعے کی تحقیقات کے ساتھ رپورٹس پیش کرنے کی ہدایات دیں۔ اس آرڈر میں جسٹس قاضی فائز نے قرار دیا کہ ہائی کورٹس کے پاس ازخود نوٹس لینے کا اختیار موجود ہے لیکن پھر بعد میں سپریم کورٹ میں انہوں نے ازخود نوٹس پر اپنی پوزیشن تبدیل کرلی تھی۔ جس کے بعد 2014 ء میں سپریم کورٹ کے جج بنے ،دیکھا جائے تو جسٹس عیسی کا بطور چیف جسٹس دور جہاں سیاسی اور عدالتی تنازعات سے بھرپور رہا تو وہیں ان کے بعض فیصلوں کی وجہ سے ملک کے سیاسی منظرنامے میں بڑی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔انہوں نے اپنے دور میں ایسے مقدمات نمٹائے جن کی سماعت کرنے کو کوئی تیار نہ تھا۔ انہوں نے آئین و قانون پر عمل کرنے کی روایت چھوڑی ہے۔جس کی زندہ مثال یہ کہ جب وہ ملک کی 75ویں سالگرہ پر پارلیمان میں پہنچے اور انہوں نے اس عمل سے پارلیمان کو بالا دست ثابت کیا۔ جبکہ ان کے اسٹیبلشمنٹ اور تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ اختلافات رہے اور بعض فیصلوں کی وجہ سے انہیں شدید تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑا۔مجموعی طور پر تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ ان کے تعلقات کچھ اچھے نہیں تھے۔ لیکن پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ ان کا تعلق زیادہ تلخ رہا۔کیونکہ پی ٹی آئی نے اپنے دورِ حکومت میں جب انہوں نے پرویز مشرف کے خلاف فیصلہ دیا تو انہوں نے جسٹس فائز عیسی کے خلاف بیرونِ ملک غیر قانونی جائیداد بنانے کا ریفرنس بنایا۔ لیکن ساتھی ججز کے دئیے گئے فیصلے کی وجہ سے جج برقرار رہے اور بعد میں چیف جسٹس بھی بنے۔ چیف جسٹس کے منصب پر آنے کے بعد قاضی فائز عیسی کے ساتھی ججز کے ساتھ اختلافات رہے۔ یہ مسئلہ ان کی ملازمت کے آخری روز تک رہا، جب ان کے ساتھی جج جسٹس منصور علی شاہ ان کے الوداعی ریفرنس میں شرکت کرنے کے بجائے عمرے پر روانہ ہو گئے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے رجسٹرار کو ایک خط بھی لکھا ہے جس میں انہوں نے الزام عائد کیا کہ چیف جسٹس فائز عیسی نے اپنے ساتھی ججز میں تفریق پیدا کی۔ان کے عزاز میں ہونے والے فل کورٹ ریفرنس میں سینئر جج جسٹس منصور علی شاہ کے علاوہ جسٹس ملک شہزاد، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس منیب اختر اور جسٹس عائشہ ملک بھی شریک نہیں ہوئے۔بنظر غائر جائزہ لیا جائے تو ان کے فیصلے، اختلافی نوٹس، ان کی کمیشن رپورٹس، خطوط، آبزرویشنز، ان کے خلاف شکایات، ریفرنسز، خبریں، رپورٹس، ساتھی ججز اور سابق چیف جسٹسز کا ان کے ساتھ رویہ، یہ سب اپنے آپ میں اتنی لمبی داستان ہیں کہ جنہیں اداریے میں سمویا نہیں جا سکتا۔ بطور جج سپریم کورٹ جسٹس قاضی کا پہلا بڑا فیصلہ فوجی عدالتوں کے قیام کے خلاف تھا۔ فوجی عدالتوں کے خلاف درخواستوں پر تمام 17 ججز نے اپنی اپنی رائے دی اور اکثریت رکھنے والے جج فوجی عدالتوں کے حامی تھے۔ لیکن جسٹس قاضی فائز نے اپنی رائے فوجی عدالتوں کے خلاف دی۔ ان کے لاتعداد فیصلوں میں سے ہیں لیکن دو بڑے اہم فیصلوں کا ذکر کرنا ضروری ہوگا۔ پرویز مشرف غداری کیس میں ان کے لئے پھانسی کی سزا دینا۔ آئین کو نومبر 2007 میں مسخ کرنے پر خصوصی عدالت نے 17 دسمبر 2019 کو پرویز مشرف کو غداری کا مرتکب ٹھہراتے ہوئے سزائے موت کا فیصلہ سنایا تھا۔جسٹس وقار سیٹھ مرحوم کی سربراہی میں تین ججز پر مشتمل خصوصی کورٹ کے دو ججز کی اکثریت سے یہ فیصلہ ہوا تھا۔ 13 جنوری 2020 کو عمران خان کی حکومت میں لاہور ہائیکورٹ نے اس سزا کو کالعدم کرنے کے ساتھ خصوصی عدالت کو ہی بے بنیاد قرار دے دیا تھا۔ لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف چار سالوں سے اپیلیں سپریم کورٹ میں زیرِالتوا رہیں لیکن سماعت کرنے کی جرات کسی چیف جسٹس کو نہیں ہوئی۔10 جنوری 2024 کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں لارجر بینچ نے اس اپیل کی سماعت کی اور پرویز مشرف پر غداری کے الزمات درست قرار دے کر ان کی پھانسی کی سزا کوبحال کیا۔ تاریخی اعتبار سے آئین توڑنے والے کسی آمر کو پھانسی کی سزا سنانا ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ دوسرا تاریخی فیصلہ ذوالفقار علی بھٹو ریفرنس کا تھا ، جو گزشتہ 14 برسوں سے سپریم کورٹ میں زیرِ التوا تھا کیونکہ کوئی چیف جسٹس سماعت نہیں کررہا تھا۔ اس ریفرنس کی آخری سماعت 2010 میں ہوئی تھی، جس کے بعد سپریم کورٹ میں 8 چیف جسٹس تبدیل ہوئے۔ عدالتی الماریوں میں بند اس ریفرنس کی سماعت چیف جسٹس قاضی نے کی اور 44 سال پہلے سپریم کورٹ سے ہوئی تاریخی غلطی کو درست کیا۔ اس ریفرنس میں سپریم کورٹ نے تسلیم کیا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو لاہور ہائیکورٹ اور نہ ہی سپریم کورٹ میں فیئر ٹرائل کا موقع فراہم کیا گیا۔ انصاف فراہم نہ کرنا نا انصافی ہی ہوتی ہے۔علاوہ ازیں ایک نجی ہاسنگ سوسائٹی کے مقدمے کی سماعت بھی چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کی، جس کے فیصلے کے نتیجے میں ملک کی خفیہ ایجنسی کے سابق سربراہ فیض حمید کے خلاف کورٹ مارشل کا اعلان ہوا۔ اسی طرح اسی شخصیت سے متاثر ہائیکورٹ کے سینئر جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے خلاف جوڈیشل کونسل کی کارروائی کو کالعدم دے کر برطرف جج کو بحال کردیا تھا ،چونکہ جسٹس صدیقی ریٹائرمنٹ کی عمر کو پہنچ چکے تھے لیکن ان کی بطور جج پینشن اور مراعات بحال کردی گئیں۔اسی طرح بد نیتی پر مبنی نواز شریف، جہانگیر ترین جیسے سیاستدانوں کو ثاقب نثار کی عدالت نے تاحیات نااہل قرار دیا تھاخ، لیکن جسٹس قاضی فائز عیسی نے تاحیات نااہل کرنے والا آئین سے ماورا فیصلہ ختم کردیا اور اس حوالے سے قانون کے مطابق جوڑ کر سیاستدانوں پر مستقل نااہلی کی سزا کی تلوار کو ہمیشہ کے لیے ہٹا دیا۔ عدلیہ کی ملکی تاریخ میں ایک تاریخ ساز فیصلہ آیا، جس میں ایک مقدمے میں آئین کو ری رائٹ کرتے ہوئے ایک ایک سیاسی جماعت کو ایسا حق دیا گیا جو اس نے مانگا ہی نہیں ۔یہ فیصلہ قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں 13 ججز پر مشتمل لارجر بینچ تھا، جو ابھی تک اپنے منطقی انجام کو نہیں پہنچا۔ 6 مئی 2024 کو اس مقدمے کی پہلی سماعت جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں تین ججز پر مشتمل بینچ نے کی۔ درحقیقت یہ پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ تھا جسے سنی اتحاد کونسل نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔ پشاور ہائیکورٹ نے اپنے فیصلے میں قرار دیا تھا ،کہ سنی اتحاد کونسل قومی و صوبائی اسمبلیوں میں مخصوص نشستوں کی حقدار نہیں ہے۔یہ معاملہ جب سپریم کورٹ میں آیا تو پہلی سماعت پر ہی جسٹس منصور علی شاہ نے پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کو معطل کردیا ججس کے نتیجے میں الیکشن کمیشن کی طرف سے مخصوص نشستوں کی جاری کردہ لسٹ کو ڈی نوٹیفائی کردیا گیا۔ پھر معاملہ لارجر بینچ میں آیا تو اپیل کنندہ سنی تحریک کو کچھ نہیں ملا۔ 12 جولائی 2024 کے اس فیصلے میں جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں 8 ججز نے تمام مخصوص نشستیں تحریک انصاف کی جھولی میں ڈال دیں۔ پانچ ججز نے اس فیصلے سے اختلاف کیا۔ دو دو ججز نے الگ اور جسٹس یحیی آفریدی نے الگ اختلافی نوٹ لکھا۔یہ وہ مقدمہ تھا جس نے سپریم کورٹ میں تفریق کو واضح کردیا اور ان آٹھ ججز کے فیصلے پر عمل نہ ہوسکا۔ الیکشن کمیشن نے اس فیصلے کے خلاف نظرثانی اپیل کی تو فیصلے کے مصنف جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب نے سپریم کورٹ کی چھٹیوں کا عذر پیش کرتے ہوئے اپیلوں کو تعطیلات کے بعد سننے کا فیصلہ دیا۔ جسٹس امین الدین اور جسٹس نعیم اختر افغان کے اختلافی نوٹ نے اکثریتی فیصلے کی ساکھ پر ایسے سوالات اٹھا دیے کہ الیکشن کمیشن فیصلے پر عمل درآمد کرنے یا نہ کرنے جیسے قانونی سوالات میں مزید الجھ گیا۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسی اور جسٹس جمال خان مندوخیل کے اختلافی نوٹس الگ تھے۔ یہ کیس مزید اس وقت الجھ گیا کہ جب جسٹس منصور علی خان نے ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے حکومت اور الیکشن کمیشن کو تنبیہ کی کہ دیکھتے ہیں کہ ہمارے فیصلے پر عملدرآمد کیسے نہیں ہوتا۔الیکشن کمیشن کی وضاحت کے لیے دائر اپیل پر سپریم کورٹ نے سماعت کیے بغیر پریس ریلیز جاری کردی۔ یہ ایک ایسا بیان تھا جسے شائع کرنے سے پہلے چیف جسٹس کی منظوری لینا بھی گوارا نہیں کیا گیا۔اس کے علاوہ سپریم کورٹ کی جانب سے ایک کے بعد ایک وضاحت دئیے جانے کی بھی کوئی مثال ماضی میں ہمیں نہیں ملتی۔ مخصوص نشستوں کے فیصلے کے حوالے سے اب تک حتمی طور پر کچھ سامنے نہیں آسکا ہے۔ الیکشن کمیشن اور نہ حکومت اس پر واضح اسٹینڈ لے رہے ہیں۔ حکومت الیکشن کمیشن کو خطوط پر خطوط لکھ رہی ہے کہ جلدی مخصوص نشستوں پر فیصلہ کیا جائے، الیکشن کمیشن سپریم کورٹ کی طرف دیکھ رہا ہے جبکہ عوام الیکشن کمیشن کی طرف دیکھ رہے ہیں۔اس کے باوجود جسٹس (ر)قاضی کو جسٹس منیر سے تشبیہ دینا افسوسناک ہے کیونکہ جسٹس منیر نے پاکستان میں مارشل لا کے بیج بوئے جو آگے چل کر تناور درخت بنا۔ جسٹس قاضی نے آئین، قانون، پارلیمنٹ اور پارلیمانی جمہوریت کا ہمیشہ دفاع کیا۔ انہوں نے اپنی ریٹائرمنٹ سے دو دن پہلے بھی آخری اختلافی نوٹ میں لکھا ہے، کہ 8 ججز نے 13 ججز سے الگ اپنی ایک عدالت قائم کرلی بلکہ انہوں نے آئین کو ہی بدل ڈالا۔واضح رہے ججز آئین بدل نہیں سکتے، وہ صرف ایک ہی راہ اختیار کرسکتے ہیں اور وہ آئین پر چلنے کا راستہ ہے۔حرف آحر یہ کہ اگر سپریم کورٹ آف پاکستان مقتدرہ کے کاندھے سے کاندھا ملانے کے بجائے جمہوریت کے حق میں کچھ اچھے فیصلے کرتی تو شاید آج ہمارے نظام عدل کی حیثیت ایک تجربہ گاہ جیسی نہیں ہوتی۔اور ملکی کی صورتحال یہ نہ ہوتی ۔