تحریر: طاہر عباس جنرل سیکرٹری تحصیل پریس کلب رجسٹرڈ کبیروالا
زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر اچانک کچھ سنہری الفاظ نکل کر آپ کے سامنے آجاتے ہیں آپ کے رہنما بن جاتے ہیں۔ کچھ ایسے ہی الفاظ لیے پیش خدمت ہیں۔ آج صحافیوں کےلیے خطرات کے موضوع پر لکھنے کی جسارت کر رہا ہوں۔ صحافت میں جب ٹکراؤ نہیں ہوگا تو مزاحمت کیسی؟ مزاحمت صحافت کا خاصہ ہے۔ بدقسمتی سے صحافت میں مزاحمت دم توڑتی نظر آرہی ہے۔ گھٹن کا احساس بڑھتا جارہا ہے۔ سماج میں بڑھتا عدم برداشت، انتہا پسندی کا فروغ، سیاست سے صحافت تک غدار اور محب وطن کا لیبل لگانا، صحافت محفوظ پناہ گاہ سے غیر محفوظ۔
دم گھٹتا ہے، سانس رکتا ہے، پھر وہی کالے سائے، خوف اور پھر وہی اندھیرے۔۔۔ مجھے ڈرلگتا ہے! مجھے بچپن سے ڈرلگتا ہے۔ اندھیرے سے، سیاہ سائوں سے۔۔۔ بچپن کی کہانیوں کے خوفناک کرداروں سے۔۔۔ یاد ہے جب شام کے سائے ڈھلتے تو میرے گھر میں چارپائیاں ڈل جاتیں اور دادا ابا کہانی سناتے۔ بچپن میں کہانیاں سننا، پڑھنا یہ مشغلہ غالباً میرے دادا الہی بخش اور نانا حاجی طالب حسین، اُن سے ملا۔
بادشاہ اور غلام، ہزار داستان، جو دوسروں کے لیے گڑھا کھودتا ہے، یوں سمجھ لیجیے قصہ گوئی، کہانی بیان کرنے کا چسکا ایسا لگا کہ آج بھی اپنے آپ کو قصہ گو ہی سمجھتا ہوں۔ لڑکپن میں محلے کی سرحد پار کر کے، اغواء کار خواتین کا خوف، دادی کے ساتھ قبرستان میں دادا کی قبر پر جانا اور قبرستان کے درختوں کے پتوں کی سرسراہٹ کا خوف۔ اندھیرے۔۔۔۔ خوف۔۔۔۔ کالے سائے۔۔۔۔ خوابوں، کہانیوں سے نکلتے حقیقی زندگی میں لڑکپن میں ہی دیکھ لیے۔
اب میرے گھر کے آنگن میں افسانوی کہانیوں کے بجائے تلخ حقیقتوں کی کہانیاں بیان ہوتیں ہیں۔
یوں سمجھ لیں پاکستان کے داغدار صحافتی تھیڑ پر سعید بٹ، ضیاء کمبوہ، راو امجد ندیم، شمس گجر، سردار قیصر اعجاز اور عمر فاروق کا سانحہ، کرائم گینگ کا ظلم، نوعمری میں ایک تماشبین اور نوجوانی میں صحافتی جدوجہد میں سٹریٹ تھیڑ کی کہانیاں لکھنے والے کا کردار ادا کیا۔ مجھ جیسے قصہ گو جسے بچپن میں اندھیرے کے خوف اور وسوسوں نے گھیرا ہوا تھا۔ جب صحافت کی دنیا میں قدم رکھا تو اسے مزاحمتی جدوجہد کی آماجگاہ پایا۔ شاید زندگی بھر کے لیے پناہ گاہ۔۔۔ اٹھائیس برس کا سفر۔ کبیروالا کی خونریز گلیوں سے متعلقہ تھانوں، سول ہسپتال تک، پریس کلب سے نشتر ہسپتال ملتان تک۔۔۔ تنازعات، جنگ وجدل، زندگی اور موت کو قریب سے دیکھنے کا سفر۔
8برس پہلے جب میں نے صحافتی سفر کا آغاز کیا تو میرے اساتذہ نے جو کچھ بتایا، سمجھایا، عملی تربیت دی اور پھر جو کچھ ہم نےپڑھا یا سیکھا اس سے چند نکتے نمایاں ہو کر سامنے آئے جن کا خلاصہ یہ ہے کہ کسی بھی معاملے کے بارے میں تحقیق اور پھر اسے صوتی، بصری یا تحریری شکل میں بڑے پیمانے پر قارئین، ناظرین یا سامعین تک پہنچانے کے عمل کا نام صحافت ہے اور اس پیشے سے منسلک فرد کو صحافی کہتے ہیں۔ ایک صحافی کو کیسا ہونا چاہیے؟ یہ ایک اہم ترین سوال ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ صحافی کے فرائض تین قسم کے ہوتے ہیں۔ وہ تجویز دینے والا،تربیت کرنے والا اور لوگوں کی حالت و معاشرہ کی اصلاح کرنے والا ہوتا ہے۔
اسی طرح صحافی سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ واقعات کو پوری صحت سے درج کرے۔ اسے خیال رکھنا چاہیے کہ واقعاتی صحت کا معیار اتنا بلند ہو کہ مؤرخ اس کی تحریروں کی بنیاد پہ تاریخ کا ڈھانچہ کھڑا کرسکے۔ صحافی رائے عامہ کا ترجمان ہی نہیں رہنما بھی ہوتا ہے، اسے صرف عوام کی تائید اور حمایت نہیں کرنی چاہیے بلکہ صحافت کے منبر سے عوام کو درس بھی دینا چاہیے۔
متعدد مقامی اخبارات نے اسی دھندے کو اپنا مستقل ذریعہ آمدن بنا رکھا ہے۔ خدارا ۔۔۔ ہوش کے ناخن لیں۔
محض ہاتھ میں موبائل کیمرہ اور مائیک اُٹھاکر یہاں "ہر ایرا نتھو غیرا” صحافی بنا ہوا ہے اور سرکاری محکموں میں اپنا رعب و دبدبہ قائم کرنے کی بھونڈی کوشش کر رہا ہے اور بات نہ بنے تو پھر یہی ”مرد مجاہد” اچانک خوشامد اور چاپلوسی پر اتر آتا ہے۔ ارباب اختیار کو بھی چاہیے کہ وہ یہاں صحافت کی اصل شناخت اور اسکی روح کو برقرار رکھنے کیلئے ایسے بلیک میلر، غنڈہ گرد بدمعاش، قبضہ مافیا، سودخور، عطائی ڈاکٹر، نجی سکول مالکان صحافتی کارڈ ہولڈر اور غیر رجسٹرڈ اداروں کیخلاف قانونی کاروائی کا باضابطہ آغاز کرکے اپنی منصبی ذمہ داریوں کو پوراکریں۔ 20 سال پہلے تک بھی یہ حقیقت موجود تھی کہ لوگ ایک طرف اگر اردو اخبارات سے اپنی املاء کی غلطیاں ٹھیک کرتے تھے تو دوسری طرف جامع اور بے لاگ اداریوں کے ذریعے بہتر رائے عامہ ہموار کرنے میں مدد ملتی تھی۔ اسی طرح رپورٹرز بھی حقائق پر مبنی ایک مالیاتی سکینڈل اور کسی کی ذاتی کردار کشی میں فرق سمجھ کر اپنی خبر فائل کرتے تھے۔ الفاظ کے چناؤ سے لیکر خبر کی صحت اور معیار کا خیال رکھا جاتا تھا۔ آخر آج سب کچھ اس کے بر عکس کیوں ہورہا ہے۔؟ اور کیا اردو اخبارات کے زوال اور ساکھ کی تباہی میں یہی عوامل کار فرما تو نہیں؟۔۔ یقیناٌ اس کا جائزہ لینے کے لیے ہمیں کسی اور کو آئینہ دکھانے سے پہلے خود آئینہ دیکھنا ہوگا۔ مجھے بھی اب ڈر لگتا ہے
میرا یہ خون میرے دشمنوں کے سر ہوگا
میں دوستوں کی حراست میں مارا جاؤں گا