دریا کنارے /لقمان اسد
اقبال سوکڑی سرائیکی میں دور جدید کے شاعر ہیں۔ جنہیں ’’ثانیِ فرید‘‘ کے خطاب سے نوازا گیا
قلمی نام اور تخلص اقبال سوکڑی نام محمد اقبال شروع میں اکثر قبیلے کی مناسبت سے اقبال قبالیؔ بھی لکھتے رہے۔اقبال سوکڑی کی پیدائش 1938ء بستی سوکڑ میں داد خاں مغلانی کے گھر ہوئی۔
اقبال سوکڑی کی جائے پیدائش جھوک قبالی (لڑا) تونسہ شریف، (پنجاب)، پاکستان جو قصبہ نتکانی کے قرب وجوار میں موجود ہے۔ بعد میں قصبہ سوکڑ(تونسہ) مقیم ہوئے۔ پھر اقبال سوکڑی کے نام سے شہرت دوام حاصل کی۔جنوبی پنجاب میں ان کا شمار ان گنی چنی ممتاز شخصیات میں ہوتا ہے جنہیں ان کی ادبی خدمات کے صلہ میں صدارتی ایوارڈ عطا ہوا
اقبال سوکڑی نے دوہڑہ، غزل، پابند نظم، آزاد نظم اور کافی پر طبع آزمائی کی ہے۔ موصوف نے جب پہلی بار غزل کہنے کا تجربہ کیا تو شعرا نے مخالفت کی، سرائیکی ادب میں جب غزل کو اعتبار ملا پھر سب شعرا نے غزل کہنے کو ترجیح دی اقبال سوکڑی کو غزل میں دلکش اسلوب اور منفرد لب و لہجہ سے جو عظمت و شہرت ملی وہ کسی دوسرے سرائیکی شاعر کے حصے میں نہیں آئی۔
نہیں سانول جیہاں مغرور کوئی
اساں وانگوں نہیں مجبور کوئی
غم تیڈا مُدت توں دامن گیر ہے
دُکھ بھری تہوں میڈی ہر تحریر ہے
وہ صرف سرائیکی خطہ کے صاحبِ اسلوب شاعر نہیں تھے بلکہ میں اُن کااحترام کرہ ارض کے یک مایہ ناز شاعر کے طور میں ان کا احترام کرتا ہوں۔مجھے مشاعروں میں یا جہانِ تشہیر کے غزل بازوں سے پرخاش نہیں ہے مگر وہ لوگ زیادہ قابلِ قدر ہیںجنھوں نے اپنا تعارف لکھے ہوئے لفظ سے کروایا۔گوشہ گمنامی میں رہے مگر خلوت گزینی بھی اُن کے ہنرکی شہرت و مقبولیت میں حائل نہیں ہو پائی۔شاید ہی کوئی ایساقاری ہوگاجس کے حافظے میں اقبال سوکڑی کے اشعار محفوظ نہ ہوں
نہ کہیں تصویر تے لکھسی نہ کہیں تلوار تے لکھسی
اساں تحریر ہائیں ساکوں کوئی دیوار تے لکھسی
موت صاحبانِ ہنر کا راستہ روکتی نہیں۔ہر تخلیق کارایک سطح پر موت کو شکست دیتا اور آگے بڑھتا نظر آتا ہے،اقبال سوکڑی یاد رکھے جائیںگے مجھے اس کا پورا یقین ہے۔
اقبال سوکڑی کے بارے میںسوچتا ہوں تو ایک کم آمیز سی شخصیت کا سراپا ذہن میں ابھرتا ہے۔ اقبال سوکڑی شاعر تھے اور بڑے نتھری ستھرے شعر کہنے والے شاعر تھے۔ لیکن میں نے جب بھی دیکھا انہیں خاموش خاموش دیکھا۔ ان کی شخصیت میں ایک طرح کا استغناء تھا، ایک پروقار شائستگی۔ ان کی شاعری طبیعت کی اسی شائستگی اور شستگی کا آمیزہ ہے۔ اقبال سوکڑی کو دھیمے انداز میں گہری بات کہنے کا ہنر آتا تھا۔ پھر چپ رہنے کا ہنر بھی آتا تھا۔ شاعری کے ساتھ ساتھ شاید قدرت نے انہیں نفس مطمئنہ کی دولت سے بھی مالا مال کر رکھا تھا۔وہ محض نفسِ مضمون کو عروض کا پابند کرنے پر اکتفا نہیں کرتے تھے بلکہ ہیئت کے تقاضوں کو بھی ممکن حد تک پورا کرنے کے قائل تھے۔ ان کے اشعار میں ہر لفظ اپنے وہاں ہونے کا جواز فراہم کرتا ہے۔ ان کے نزدیک شعر کا صوتی آہنگ اور اس کی ٖفضا بھی بہت اہم تھے
ایک نہایت عمدہ شاعر اور نفیس انسان ہم سے جدا ہو گیا۔ان کی تصنیفات میں ترمیم،اٹھواں اسمان(آٹھواں آسمان)،کالے روہ چٹی برف،ورقہ ورقہ زخمی،ڈکھ دی جنج(دکھ کی بارات)،ہنجوان ڈے ہار،بے انت،لیرو لیر پچھانواں (تار تار سایہ قابلِ ذکر ہیں
اقبال سوکڑی مرحوم کے شعری سفر کی ہر جہت ایک نئے جہانِ معانی کی خبر لاتی ہے۔ زندگی کے ساتھ اُن کا رومان محض وصال وہجر کے روایتی تصور تک محدود نہیں۔ بلکہ ذات اور کائنات کے کچھ ناشنیدہ اور کچھ نادیدہ جہانوں کی دریافت اور بازیابی سے بھی عبارت ہے۔اُن کی غزل کے مطالعے سے ایک ایسی مستحکم اور غیر متزلزل تخلیق کار شخصیت کا خاکہ ابھرتا ہے جس کے سماجی اور تاریخی وجود کی کوئی حد مقرر نہیں۔انھوں نے روایت کو محبت کامتبادل اور خود کو زمانوں کا نمائندہ مان کر شاعری کی ہے
اقبال سوکڑی سرائیکی لٹریچر کا ایک دیو مالائی کردار تھا ان کی شاعری اور ادب نے سرائیکی خطہ کے عوام کے دلوں کو چھوا ان کی زبانی داستانیں اور تخلیقی تجربات ہمارے کلچر کی عکاسی کرتے تھے ان کی موت سرائیکی زبان و ادب میں ایک خلاسا پیدا ہوگیا ہے جسے بھرنا شاید ممکن نہ ہو