بنگلادیش میں سابق وزیراعظم شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے بعد پیدا ہونے والے سیاسی بحران کے باعث عالمی فیشن برانڈز اپنے آڈرز منسوخ کرنے لگے ہیں، جس کے باعث بنگلادیش کی معیشت کو خطرات لاحق ہوگئے۔ دنیا کی دوسری بڑے گارمنٹ ایکسپورٹر تصور کیے جانے والے بنگلادیشی مینوفیکچررز کا کہنا ہے کہ شیخ حسینہ واجد کے طلبہ کے احتجاج پر کریک ڈاؤن کے ردِعمل میں معروف برانڈز کی فیکٹریاں بھی نذر آتش کردی گئی تھیں۔ یہ فیکٹریاں شیخ حسینہ حکومت کے حامیوں کی تھیں۔فیکٹریوں کو نقصان پہنچائے جانے کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کے باعث یورپ اور شمالی امریکا میں موسم سرما کےلیے کپڑوں اور جوتوں کی فراہمی میں تاخیر ہوگئی۔بنگلادیشی ایکسپورٹرز کا کہنا ہے کہ بعض برانڈز نے آنے والی سیزن کے آرڈرز کو یہاں سے منتقل کرنا شروع کردیا ہے جس سے ملک کی معیشت کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے۔ بنگلادیش میں گارمنٹس مینوفیکچررز کے مشیر مامون رشید کا کہنا ہے کہ فیکٹریوں کو ہسپانوی اور جرمن خریداروں کی فون کالز موصول ہوئیں جو یہ کہہ رہے تھے کہ ‘فی الحال ہم اپنے آرڈرز کا 40 فیصد حصہ کمبوڈیا یا انڈونیشیا کی طرف موڑ رہے ہیں۔ایپیکس فوٹ ویئر کے منیجنگ ڈائریکٹر سید نسیم منظور نے کہا کہ اس افرا تفری نے بنگلادیش میں بین الاقوامی برانڈز کے درمیان اعتماد کو حقیقی طور پر متزلزل کر دیا۔ انکا کہنا تھا کہ بڑے گروپ کہہ رہے ہیں کہ وہ اگلے سیزن کےلیے اپنی سورسنگ میں 30 فیصد کمی کریں گے۔ اب ہمیں یہ یقینی بنانا ہوگا کہ اعتماد بحال ہو۔
عبوری بنگلادیشی حکومت کے سربراہ نوبیل انعام یافتہ محمد یونس کا کہنا ہے کہ ان کی پہلی ترجیح قانون اور نظم و ضبط کی بحالی ہے، حکومت بدعنوانی کے خاتمے اور بیوروکریسی اور عدلیہ میں اصلاحات پر کام کرے گی،دوسری جانب حکام نے ایک نئی صنعتی سیکیورٹی ٹاسک فورس بھی تشکیل دی ہے اور فیکٹریوں کی حفاظت کےلیے فوج کو تعینات کیا ہے۔ سابق حکومت کے خاتمے کے بعد ہڑتال پر جانے والی پولیس نے ڈیوٹی پر واپس آنا بھی شروع کردیا۔یہ صورتحال بنگلادیش کے ایکسپورٹ سیکٹر کےلیے چیلنجز پیدا کر رہی ہے، تاہم ایکسپورٹ انڈسٹری کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ اگر ملک کی سیاسی استحکام بحال ہو جاتی ہے تو یہ سیکٹر دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہو سکتا ہے۔