تحقیق و تحریر شمشاد حسین سرائی
وادی سندھ کا عظیم خطہ لیہ اپنی علمی ادبی ثقافتی اور تاریخی حیثیت سے ایک اہمیت رکھتا ہے۔یہاں کے شعرا اُدبا اور مورخین اپنی تحقیق اور کلام کی وجہ سے پورے بر صغیر میں معروف ہیں ۔شاعر ادیب یا دانشور جو کچھ تخلیق کرتا ہے اس کی نگارشات میں ماحول اور علاقے کا اثر دکھائی دیتا ہے اہل قلم معاشرے کا حساس ترین طبقہ ہوتا ہے اس لیے وہ معمولی سی بات کو بھی زیادہ اہمیت کا حامل سمجھتا ہے ان کی یہی حساسیت تخلیقات کا بحث بنتی ہے علمی و ادبی لحاظ سے لیہ بہت زرخیز سرزمین ہے اور اسے شہر دانش یا ادب کا لکھنو بھی کہا جاتا ہے جہاں ایسی ایسی نابغہِ روزگار شخصیات نے ادب کی ابیاری فرمائی جن کے اسمائے گرامی آج بھی آسمان شعرو سخن پر نیّرِ تاباں کی طرح روشن اور درخشاں دکھائی دیتے ہیں یہاں کی علمی و ادبی محافل اور معاشرے پر دبستانِ لکھنو کا گمان ہوتا دکھائی دیتا ہے لیہ کو علم و ادب کا ایتھنز یا یونان کہا جائے تو بے جا نا ہوگا جغرافیائی لحاظ سے لیہ پسماندہ پنجاب کا پسماندہ ترین علاقہ ہے اور لیکن مضافات کے تمام شہروں میں سے علمی و ادبی لحاظ سے کسی سے کم نہیں ہے لیہ وہ صدف ہے جس کی کوکھ سے ایسے ایسے لعل و جواہر اور موتی نمودار ہوئے جن کی چمک نے آج بھی برصغیر کو منور کیا ہوا ہے تھل کے ریگزاروں میں اُفقِ ادب پر ایسے آفتاب طلوع ہوئے۔ جس کی سنہری کرنے آج بھی جہان ادب کو منور کیے ہوئے ہیں۔
بر صغیر پاک و ہند کے نامور ادیب ماہر تعلیم و ہنر جن کی تخلیقات کو ملک اور بیرونِ ملک ہر جگہ تسلیم کیا گیا ہے اُن کا تعلق بھی سرزمین لیہ سے تھا جن میں ڈاکٹر گوپی چند نارنگ وہ جو نہرو یونیورسٹی دہلی میں صدر شعبہ زبان و ادب ادبیات رہے۔ معروف ماہر تعلیم عبداللہ نیاز مرحوم ڈاکٹر مہر عبدالحق سمرا اور معروف مورخ فقیر میاں الہی بخش سرائی کے اسمائے گرامی قابل ذکر دکھائی دیتے ہیں یعنی علمی و ادبی پیشروں کی حیثیت حاصل رہی ہے
لیہ کی جدید ادبی تاریخ و فضا پر نظر ڈالنے سے ہمیں اس صحرائے تھل میں جو علم و ادب کی رمک دکھائی دیتی ہے وہ 1944 سے قبل کسی ادبی انجمن یا اکیڈمی کا باضابطہ حوالہ تو نہیں ملتا لیکن کہیں کہیں واقعات کربلا اور امام عالی مقام حضرت امام حسین علیہ السلام پر سرائیکی دوھڑے اور بندوں کی صورت میں منظوم خراج عقیدت دکھائی دیتا ہے
قیام پاکستان سے کچھ عرصہ قبل فروغ علم و ادب کے سلسلے میں باضابطہ ادبی انجمن معرض وجود میں آتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں اور انہی تشنگان علم و ادب کی پیاس بجھائی اور ان ادبی انجمنوں کا مقصد تعارف اور ادبی خدمات کا ذکر ہم اس پہلی قسط میں کرتے ہیں
بزم علم و ادب لیہ
1944 کے وسط میں اس بزم کا قیام عمل میں آیا یہ ادبی انجمن ہائی سکول کی سطح سے ابھری اور دیکھتے ہی دیکھتے سکول کے اندر اور باہر بہت جلد معروف ہو گئی اور بے شمار مشاعرے کرائے اس بزم کا سہرا جن کے سر تھا ان میں برصغیر کے مشہور نقاد اور دانشور ڈاکٹر گوپی چند نرنگ بھارت جو کہ اس وقت ہائی سکول لیہ میں میٹرک کے طالب علم تھے اور ان کے ساتھ ادبی سفر میں ان کے ساتھی معروف شاعر نسیم لیہ مرحوم جنرل سیکرٹری ریاض انور بیدی خادم حسین بھٹی دامن عباسینی جیسے نابغہ روزگار لوگ شامل تھے اس ادبی انجمن نے لوگوں میں ادبی شعور بیدار کیا ادب سے روشناس کرایا اور ادب کی خدمات کا ذوق و شوق پیدا کیا
بزم ارباب سخن لیہ
معروف سرائیکی شاعر جناب حسن رضا گردیزی جو کہ لیہ میں بطور تحصیلدار تعینات ہوئے انہوں نےآتے ہی یہاں کے شعراء کے ساتھ مل کر ایک ادبی انجمن کی بنیاد رکھی جو کہ بزم ارباب سخن لیہ کے نام سے موسوم ہوئی موصوف اس کے صدر منتخب ہوئے اور معروف نقاد سرائیکی اردو کے مشہور نقاد اور دانشور ڈاکٹر مہر عبدالحق سمرا صاحب جنرل سیکرٹری ارکان میں سے نسیم لیہ، رب نواز شکستہ، مولانا محمود نظامی، محمد شفیق خان عاصی، عبدالرحمان مونس اور خان عبدالرحمن خان راضی جیسے باغ لوگ شامل تھے ڈاکٹر قیصر عباس مرحوم کے ہاں اس بم کے عظیم الشان مشاعرے منعقد ہوئے بزم ارباب سخن لیہ کا مقصد ادب کو فروغ دینا نئے لکھاریوں کی حوصلہ افزائی کرنا، تعمیری ادب اور سوچ کو فروغ دینا تھا
اس تنظیم کے زیر اہتمام لیہ کے سرزمین پر بہت بڑے بڑے مشاعرے منعقد ہوئے جن میں اردو سرائیکی کے نامور شعراء کو مدعو کیا گیا ان اس بزم نے لیہ کی ادبی فضا میں دھوم مچا دی لیکن افسوس اس بات کا کہ جناب حسن رضا گردی کے جانے کے بعد بزم اپنا دم توڑ گئی
مجلس لیہ
اس بزم کی بنیاد 1954 میں رکھی گئی تھی ابھی اس کے بانی جناب مرزا رفیق عنایت صاحب ایس ڈی ایم لیہ تھے جو کہ نہایت زندہ دل اور بازوق ادمی تھے لیہ کے ادبی تاریخ میں اس انجمن کو یہ اعزاز حاصل رہا ہے کہ اس کے بزم کے زیر تمام آل پاکستان مشائخ کانفرنس کا انعقاد عمل میں لایا گیا اس بزم میں فروغ ادب کے لیے اہم کردار ادا کیا مجلس لیہ کے مشاعروں میں ملک کے نامور اردو کے قادر الکلام شعراء نے حصہ لیا جن میں جگر مرادآبادی جوش ملا ملیح ابادی، احمد ندیم قاسمی، ظہیر کاشمیری اور مصطفی زیدی وغیرہ کا اسمائے گرامی قابل ذکر ہیں
لیہ میں مصطفی زیدی نے اپنی شریک حیات جرمن نژاد ویرا کے اعزاز میں 1958 میں آل پاکستان مشاعرہ اسی بزم کے تحت کرایا تھا
قصرِ ادب لیہ
اس انجمن کی بنیاد 1952 میں شاعر شباب حضرت نسیم لیہ مرحوم نے رکھی اس انجمن کے مقاصد میں عوام اور سرکاری حکام سے شعراء کرام اور ادباء عظام کے روابط قائم کرنا اور ان کی مالی امداد سے کتابیں شائع کرانا تھا اس انجمن کے زیرِ اہتمام مشاعرے اور ادبی نشستیں بھی منعقد ہوا کرتی تھیں۔ جو کہ تاریخی اہمیت کے حامل تھی جن میں ملک کے نامور و دانشور شعراء کرام حصہ لیتے تھے اس تنظیم کو کئی شعراء کرام کے مجموعہ کلام کو شائع کرانے کا شرف بھی حاصل رہا ہے تاریخ میں اس تنظیم کو ادب کے نام سے منفرد مقام حاصل رہا
نیرنگ ادب لیہ
نیرنگ ادب لیہ کی بنیاد 1960 میں رکھی گئی اس بزم کے بانی سید فضل حق رضوی مرحوم تھے جنہوں نے اس کے زیر اہتمام کافی مشاعرے کرائے اور ادب کو ایک نیا شعور دیا شاہ صاحب کے کلام پر مشتمل ایک کتاب "دھوپ چھاؤں” بھی اسی تنظیم کی وساطت سے شائع ہوئی
بزمِ تخلیق نو
بزم تخلیق 1963 میں قائم ہوئی اس کے بانیان میں ڈاکٹر فیاض قادری صاحب اور شعیب جاذب ہیں۔ جبکہ پروفیسر تحسین فراقی منظور حسن اختر، شہباز نقوی اس کے اہم عہدوں پر فائز رہے اس بل کا مقصد نئے لکھنے والوں احباب کی کاوشوں کو پذیرائی عطا کرنا تھی نئی تخلیقات نظم و نثر کے اشاعت اور ترویج کا اہتمام کرنا تھا اس کے زیر اہتمام پاکستان کی سطح پر بڑے بڑے مشاعرے منعقد ہوئے جس کے روح رواں ڈاکٹر سید فیاض قادری مرحوم تھے
اس بزم کے تحت 1975 میں آل پاکستان مشاعرہ منقعد ہوا جس کی صدارت جناب عبدالروف اے سی لیہ نے فرمائی مہمان خصوصی بسمل صابری صاحبہ تھیں اور نظامت کے فرائض نسیم لیہ نے سرانجام دیے ملک کے نامور شعراء نے حصہ لیا جن میں جمیل جالبی ،ثاقب حسینی، حافظ قمر لدھیانوی، کوثر حجازی شاکر نظامی، فیاض صدیقی، ارشد ملتانی، حسین سحر، محمد ابراہیم پانی پتی، بیدل حیدری، افضل جعفری، قمر صدیقی وحشت امبالوی، غلام محمد قاصر رسا، پانی پتی، وقار انبالوی کے اسمائے گرامی قابل ذکر ہیں ادب لیہ کے فروغ کے سلسلہ میں ہر ماہ کی پانچ تاریخ کو ڈاکٹر فیاض قادری سکول میں مشاعرہ منعقد کراتے تھے۔
بزم سرائیکی چمن
یہ بزم 1964 میں قائم ہوئی ڈاکٹر مہر عبدالحق سمرا پی ایچ ڈی اس کے سرپرست اعلی تھے اور اس کے بزم کے مقاصد میں سرائیکی زبان و ادب کی ترویج و ترقی اور سرائیکی شعراء کی حوصلہ افزائی پر تحقیق اور تبصرے سرائیکی تحقیق کے کام وغیرہ شامل تھے اس بزم کے زیر اہتمام مشاعرے مذاکرے اور سیمینار منعقد کرائے گئے اس طرح کی ادب کی فروغ کے لیے اس بزم کی خدمات نمایاں ہیں عہدے داران میں نسیم لیہ مرحوم شعیب مرحوم میاں الہی بخش سرائی مرحوم کے اسمائے گرامی شامل تھے۔
خیال اکیڈمی لیہ
یہ بزم 1974 میں قائم کی گئی شاعر فکر و انقلاب ڈاکٹر خیال امروہی مرحوم اس کے بانی تھے اس اکیڈمی کے عہدے داران نہیں تھے بلکہ تمام وہ لوگ جو اس نہج پر ترقی پسند سوچ رکھنے والے اس کے عہدے دار اور اس کے اراکین میں شامل تھے یہ تنظیم ادب کو خالستان انقلابی سوچ اور ترقی پسند نظریات کے لیے استعمال کرتی تھی اس بزم کے مقاصد میں ترقی پسندانہ سوچ کی ترویج و ترقی اکیڈمی کے تعلیمی شعبے کی تعمیر و ترقی بین الاقوامی ترقی پسند تحریکوں سے رابطہ پاکستانی ائیڈیالوجی کی تشکیل جدید شامل ہیں اس اکیڈمی کے مختلف شاخیں ہیں جو کہ دوسرے شہروں میں بھی اسی نظریات کی ترویج و ترقی کے لیے شب و روز کوشاں تھی اس اکیڈمی کے زیر اہتمام ہر ماہ دو تاریخ کو مذاکرہ سیمینار اور مشاعرہ منعقد کیا جاتا تھا جس میں مقالات و مضامین اور غزلیات پڑھی جاتی تھیں۔ یہ اکیڈمی خیال ا امروہی کے زیر سرپرستی نئے ذہن و افکار پیدا کرنے میں شب و روز مصروف کار رہتی تھی جدید سکالر اور اہل قلم پیدا کر رہی تھی اور پھر ان کی تخلیقات کو مختلف رسائل کے ذریعے پورے ملک میں متعارف کرایا جاتا تھا اس اکیڈمی نے نئے نئے لکھنے والوں کی سوچوں اور تحریریوں کو نئی روح اور نیا رخ دیا اس اکیڈمی نے نئے لکھاریوں کی کاوشوں کو جلا بخشی ڈاکٹر خیال امروہی مرحوم زندگی میں اپنے نام کے ساتھ بوڑھے ہونے کا لفظ پسند نہیں کرتے تھے بلکہ فرماتے تھے کہ میری سوچیں بلند و جواں ہیں میں بھی جواں ہوں اور میرے نظریات بھی۔ انہوں نے اپنے نظریات کا اثر بہت سے لوگوں پر چھوڑا جن میں مثلا گفتار خیالی ریاض راہی عابد منہاس افتاب اعوان اور جسارت خیالی کے نام قابل ذکر ہیں
تھل ادبی اکادمی لیہ
یہ ادبی تنظیم تو کافی عرصہ سے ادب کی آبیاری میں خدمات سرانجام دیتی رہی لیکن اس کاباقاعدہ آغاز 17 اپریل 1993 کو ہوا اس تنظیم کے محرک کو بانی ضلع لیہ کے معروف مورخ اور دانشور اور حکیم فقیر میاں الہی بخش سرائی تھے
عہدے داران میں صدر میاں شمشادسرائی نائب صدر اسحاق انجم مرحوم جنرل سیکرٹری ذکی تنہا ایڈوکیٹ جائنٹ سیکرٹری جمشید ساحل فنانس سیکرٹری راجہ مختیار راہی پریس سیکرٹری مشتاق لنگاہ اور آفس سیکرٹری پرنس آصف کے نام دکھائی دیتے ہیں بعض کے موجودہ عہدے داران میں چیئرمین محمد عثمان خان مرحوم سرپرست اعلی میاں الہی بخش سرائی مرحوم، صدر میاں شمشاد حسین سرائی جنرل سیکرٹری ذکی تنہا اور جوائنٹ سیکرٹری زاہد ملک اور فنانس سیکرٹری سی انجم کے اس ماہ بھی شامل تھے اسی ادبی تنظیم نے کئی مشاعرے اور مذاکرے اور نشستیں منعقد کرائی ان کے زیر اہتمام کل پاکستان مشاعرہ بھی ضلع کونسل ہال میں منعقد کیا گیا جس میں ملک کے معروف ف شعراء و ادبا نے شرکت کی جن میں مشہور دانشور شاعر استاد الشعراء حضرت مسرور بدا یونی فیصل ابادی مرحوم بھی یہاں تشریف لائے اور ان کی زیر صدارت یہ مشاعرہ ہوا جن میں ملک بھر سے کے شہروں سے مثلا سرگودھا ملتان، فیصل اباد، ڈیرہ غازی خان اور ملک کے دیگر شعراء شہروں بھکر، ملتان تونسہ شریف، ڈیرہ غازی خان کے شعرا نے شرکت کی تھل ادبی اکیڈمی کے زیر اہتمام ضلع لیہ کی سطح پر پہلی بار کسی تنقیدی شعری نشست کی بنیاد ڈالی گئی اور ہر ماہ کی سات تاریخ کو ادبی اکادمی کا اجلاس اور شعری نشست منعقد ہوا کرتی تھی اکادمی مستقل قریب میں بھی نوجوان شعراءلیہ پر ایک کتاب بھی لانے کا ارادہ رکھتی تھی جس کا نام "نئی آوازیں” تجویز کیا گیا تھا لیکن یہ پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکا۔
بزم اخوت لیہ
یہ بزم اخوت لیہ ایک اصلاحی اور ادبی قسم کی تنظیم تھی اس کے بانیان میں فقیر میاں الہی بخش مرحوم، پروفیسر اکرم میرانی، پروفیسر نواز صدیقی مرحوم اور عثمان خان مرحوم کے نام شامل ہیں اس بزم کے مقاصد میں ادبی گروہ بندی اور کا خاتمہ خصوصاً اس وقت کے نسیمِ لیہ گروپ اور چوہدری نذیر گروپ میں باہمی اخوت پیدا کرنا اور پیام محبت کو عام کرنا تھا تمام قلم کاروں کی تخلیقات کو شائع کرانا اور سرکاری فنڈ سے اہل قلم حضرات کی مالی اعانت کرنا بھی شامل تھا ان اس بزم کے عہدہ داران میں بانی فقیر میںاں الہی بخش سرائی مرحوم سرپرست پروفیسر نواز صدیقی صدر پروفیسر محمد اکرم میرانی جنرل سیکرٹری محمد عثمان خان مرحوم کی جگہ پر ہر مہینے ماہانہ اجلاس منعقد ہوا کرتا تھا اس بزم نے فروغ علم و ادب میں کے سلسلے میں تاریخی کردار ادا کیا
(جاری ہے )