1878 کے محکمہ مال کے ریکارڈ کے مطابق مائی ماتا ںکے گردو نواح کو”چاہ ماتا”والا کہا جاتا تھا۔اس جگہ کے مالک’باوا اور وداس چیلا باوا کنول داس قوم فقیر بیراگی تھا۔1921 کے بندوبست کے مطابق ملکیت کا یہ سلسہ باوا مراد داس چیلا تلوکہ داس تک پہنچتا ھے اس جگہ سے لوگوں کی عقیدت دیکھتے ھوئے اس وقت کی حکومت نے سارے”کھوہ” کا لگان تا قیامت معاف کر دیا تھا۔اس مزارپر ایک سرائے اور مندر بھی تھا جس کے آثار آج تک موجود ھیں۔مائی ماتاں شیخ جلال الدین ، حضرت کموں کامل اور حضرت اشرف بغدادی کی ہم عصر تھیں۔وہ لیہ کے ایک ھندو گھرانے(تقریباً 1600) میں پیدا ھوئیں لیکن انکی زبان پر”رام رام”کی بجائے ذکرالٰہی کا ورد رھتا تھا ان کے خاندان کو یہ بات پسندنہ تھی۔آخر ایک روز وہ انھیں قتل کرنے کیلیے آگے بڑھے تو انھوں نے حضرت شیخ جلال الدین(بعض لوگوں کے نزدیک حضرت کموں کامل) کے پاس پناہ لی انھوں نے انھیں دائرہ اسلام میں داخل کیا اور مزارطکی جگہ موجودہ بوہڑ(برگد) کے درخت کے نیچے ڈیرہ ڈالنے’عبادت کرنے اور چیچک کے مریضوں کا روحانی علاج کرنے کا اذن دیا۔اس زمانے میں اس بیماری کا یہاں دیسی علاج فقط یہ تھا کہ مریض کو ایک ھفتہ کے لیے کمرے میں بند کر دیا جاتا تھا اور اس پر یہ پابندی ھوتی تھی کہ وہ لوگوں کے سامنا کرنے حتٰی کہ ان کی آواز تک سننے سے پرپیز کرے۔مائی ماتا کی وجہ سے کمروں میں بند مریض باہر آ گئے اور شفایاب ھونے لگے۔چیچک یا جلدی امراض میں مبتلا مریض آج بھی اس مزار پر حاضری دیتے ھیں اور وہاں کی متولی سے دم لے کر شفا پاتے ھیں۔لہذا مائی ماتانے یہیں اپنا ڈیرہ ڈالا اور سارا دن چرخہ کاتتی رھتیں’اور چیچک کے مریضوں کو سوت کا دھاگہ دم کر کے عطا کرتیں۔ایک دن کوئی نا محرم آیا اور اس نے مائی ماتا سے دست درازی کی کوشش کی آپ نے اپنی عصمت کے تحفظ کے لیے خدا کو پکارا’خدا کے حکم سے زمیں شق ھو گئی اور آپ وہیں پر غائب ھو گئیں اسی جگہ مائی ماتا کی قبر بنائی گئی اور اوپر ایک چھوٹا سا کمرہ بنایا گیا جو آج انکا مزار ھے کہتے ھیں کہ جب آپ زمین میں غائب ھوئیں تو آ پ کا دوپٹے کا پلو باہر رہ گیا۔مائی ماتا کو کالی ماتا بھی کہا جاتا ھے اس حوالے سے دو روایات ھیں ایک یہ کہ انکا رنگ کالا تھا۔دوسری روایت یہ کہ مقامی زبان میں چیچک کو کالی ماتا کہا جاتا کہا جاتا تھا
یہ بات مستند ھے کہ انکا نام چیچک کے علاج کے حوالے سے”ماتا”پڑا کیونکہ مقامی زبان میں "ماتا”جسم پر نکلے دانوں کو کہا جاتا ھے۔مزار کے ساتھ موجود سرائے کا ایک کمرہ خستہ حالی کے باوجود قائم ھے۔ہر صاحب ذوق اس مزار کے مٹتے آثار پر پریشان ھے۔اس مزار کا جرم’مندر کی ھمسائیگی’ اور اس کے مکین کا عورت ھونا ھے کہ یہاں بھی میل شاونزم کی وجہ آڑے آ گئی اگر یہ مزار کسی مرد بزرگ کا ھوتا تو شاید یہ صورت حال نہ ھوتی۔بہرحال مائی ماتا کا یہ مزار اس بات کی بھی عکاسی کرتا ھے کہ اس شہر میں تصوف کی روایت بہت مضبوط رھی اور یہاں کے لوگ دین دھرم کی تفریق سے بالا تر ھو کر ایک دوسرے کا احترام کرنے والے ھیں۔