تحریر:جمشید ساحل
” مارگریٹ اٹوڈ ” نے کہا تھا…. "اگر آپ اپنی آواز تلاش کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو خود اسے سُننا ہوگا۔” یہ اُدھر کوئی ١٩٨٧ ء کی بات ہے جب ہم نے گورنمنٹ کالج لیہ جیسی عظیم الشان درس گاہ میں…. قدم رکھا…. اُس وقت حصولِ علم کے لیے ہمارے سامنے دو ہی راستے تھے ایک راستے میں فنونِ لطیفہ سے وابستہ مجسم شخصیات تھیں دوسرے راستے میں فنونِ لطیفہ سے گُریزاں وہ لوگ تھے…. جو سائنسی ارتقاء کی کھوج لگا رہے تھے….ہم فنونِ لطیفہ سے متاثر تھے سو اسی راستے پر چل پڑے … یہ وہ زمانہ تھا جب درس گاہیں چار دیواریوں سے مُبرا تھیں … اور علم کے دروازے سب کے لیے کُھلے ہوتے تھے….. گورنمنٹ کالج لیہ کی مشرقی جانب ایک پختہ سنگل سڑک تھی اور مغربی جانب نہر کنارے شیشم کے تناور درخت ہوا کرتے تھے……کالج کی مغربی سمت پُختہ اینٹوں پر مشتمل ایک راستہ کالج میں داخل ہوتا تھا اور اس راستے کے دونوں اطراف شیشم، املتاس، ارجن، شاہ بلوط اور سُنبل جیسے انگنت تناور درخت……ہماری راہ دیکھتے تھے…. اُس وقت کالج ہذا کے پرنسپل پروفیسر فقیر محمد سرگانی … شُعبہ فارسی کے پروفیسر ڈاکٹر خیال امروہوی اور شُعبہ اردو کے پروفیسر محمد نواز صدیقی ہوا کرتے تھے…. یہ وہ اساتذہ تھے… جن کی تدریس سے نئی نسل اپنے مُستقبل کی راہیں متعین کر رہی تھی.. شُعبہ انگریزی میں پروفیسر غُلام محمد اور پروفیسر ملک بہادر ڈلو ….. شُعبہ اکنامکس میں پروفیسر بابر خان، شُعبہ جغرافیہ میں پروفیسر عزیز احمد خان، شُعبہ ایجوکیشن میں پروفیسر محمد افضل رضا اور ہیلتھ اینڈ فزیکل ایجوکیشن میں پروفیسر محمد اقبال تھے اسی طرح دیگر سائنس مضامین کے پروفیسرز بھی تھے… اگر ہم یہ کہیں کہ ایک کہکشاں تھی…. جس سے یہ تاریخی درس گاہ جگمگا رہی تھی تو غلط نہ ہو گا۔۔۔۔۔۔۔ اس دوران گورنمنٹ کالج لیہ میں اُردو زبان و ادب کے ایک نئے پروفیسر مہر اختر وہاب بھی آ گئے جن کا تعلق لیہ کے ایک بڑے علمی و ادبی سمرا خانوادے سے تھا….
اُن دنوں کالج میں طلباء یونین کے الیکشز کی گہماگہمی عروج پر تھی ایک طرف شاکر حُسین کاشف جب کہ دوسری طرف تجمل سُہیل بلوچ کالج میں ایکدوسرے کے مدِ مقابل ہوا کرتے تھے….. سکول کی چاردیواری میں محبوس طالب علموں کے لیے یہ ماحول…. گفتگو اور مکالمے کی فضا کا پہلا جھونکا ثابت ہوا …. ہمارے ساتھ دوستوں کا ایک قافلہ تھا جو ایک کارواں کی صورت اس کالج میں آن داخل ہوا … وہ کشادہ کمرے اور اُن کمروں کی چھتوں پر رکھی کُرسیاں اور اُن کُرسیوں پر براجمان ہم دوست، وہ راہداریاں اور راہداریوں میں ہم اپنی کتابوں کو سینوں سے لگائے ایک سے دوسرے کمرے میں داخل ہوتے منظر کو کیسے بھول سکتے ہیں…. وہ سبزہ زار جن کے اطراف میں خُدائی پہرہ دار…. ہمارا انتظار کھینچتے تھے ….یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے یہ ابھی کل کی بات ہو … وہ بات بات پر قہقہے…. ہماری زندہ دلی کا اعلان کرتے تھے…. ہم کیسے بُھول سکتے ہیں… لائبریری کی کتابوں سے بھری وہ الماریاں…. جن میں کتابوں کو … ناکردہ گناہوں کی سزا میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑرہی تھیں….یہ اُس زمانے کی بات ہے جب درس گاہوں کو دیواروں میں محبوس نہیں کیا گیا تھا… بلکہ کتابوں کو لوہے اور شیشے سے بنی الماریوں میں…… گفتگو اور مکالمے کی شعوری کوشش سے کہیں پہلے پابندِ سلاسل کر دیا گیا تھا…. لیکن ہم اُس وقت بھی رائج الوقت راشن کارڈ کی طرح….. لائبریری کارڈ سے کتابیں جاری کروا لاتے تھے…یہ پہلے دو سال کبھی نہ بھولنے والی یادوں کی ایک دُنیا لیے پلک جھپکتے بیت گئے…. اُس وقت ہمارے سامنے….دن کے وقت مشرق سے اُبھرتا سورج ہوتا تھا اور رات کے چوتھے پہر….. چاند کی ستاروں سے الوداعی پُرسراریت تھی ۔۔۔۔…
سال ١٩٩٠ ء میں ہم ایک بار پھر گریجوایشن کے لیے اس علمی درسگاہ میں موجود تھے…کالج کے اندر کئی بوڑھے درخت سوکھ کر جُھک چُکے تھے اور چاروں طرف قطار میں نئے درخت جھوم رہے تھے….. کالج میں پروفیسر ڈاکٹر ظفر عالم ظفری اور پروفیسر شہباز نقوی اُردو زبان و ادب کی ترویج میں اپنا کردار ادا کر رہے تھے…گورنمنٹ کالج لیہ میں سال بعد ایک میگزین ” تھل” شائع ہوتا تھا۔۔۔۔ جو معلمین اور متعلمین کی تحریروں سے مزّین ہوتا تھا….. فنونِ لطیفہ سے وابستہ رئیس قمر اور راجہ اسحٰق اسد جیسے متعلمین کی ادارت میں ” تھل” محض ایک میگزین ہی نہیں…. ایک روایت کا نام تھا… ” تھل” میگزین کے مدیران کے انتخاب کا طریق کار میرٹ پر مبنی تھا… اُردو اور انگریزی کے مدیران کے انتخاب کے لیے ایک تحریری ٹیسٹ لیا جاتا تھا… جس میں کامیاب ہونے والے متعلمین کو میگزین کی ادارت دی جاتی تھی… ہم اُردو زبان و ادب کے طالب علم تھے… کالج نوٹس بورڈ پر ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کے شعر کا ایک مصرعہ لکھا ہوا تھا کہ جو ” تھل” میگزین کی ادارتی ٹیم کا حصہ بننے کا خواہش مند ہو وہ ٹیسٹ میں شریک ہو سکتا ہے… وہ مصرعہ تھا
"عروجِ آدمِ خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں” پروفیسر مہر اختر وہاب کی نگرانی میں یہ ایک گھنٹے کا ٹیسٹ تھا.. ہم نے بھرپور انداز میں حصہ لیا ۔۔۔ دو دن بعد کالج نوٹس بورڈ پر آویزاں ادارتی ٹیم میں ہمارا نام بھی شامل تھا… گویا خوشی کی ایک لہر نے… ہماری زندگی میں کئی رنگ بھر دئیے… گریجوایشن کے ان دو سالوں میں…. ہماری زندگی کے باب میں….. اُردو زبان و ادب کے ساتھ ساتھ علم و فن سے گہری وابستگی پیدا ہو گئی …. پروفیسر مہر اختر وہاب اُردو زبان و ادب پر گہری نظر رکھتے تھے اور ہم جیسے متعلمین کے لیے مشعل راہ تھے… ان کے زبان و ادب اور دیگر تمام موضوعات پر دیئے گئے لیکچر … متعلمین کی سماعتوں سے ہوتے ہوئے دل و دماغ میں نقش ہو جاتے تھے…..انگریزی زبان و ادب کے پروفیسر غُلام محمد کے پڑھانے کا انداز اس قدر سحر انگیز ہوتا تھا اور ہمیں یوں محسوس ہوتا تھا جیسے وقت ٹھہر گیا ہو……. اور وقت ہمارے درمیان سانس روکے ہمہ تن گوش ہو….. اُردو اور انگریزی زبان و ادب کی کہکشاں سے مزیّن گورنمنٹ کالج لیہ اپنے اندر ہزاروں ایسی کہانیاں سموئے ہوئے تھا… جو کالج کے چپے چپے پر مختلف انداز میں نقش تھیں….یہ کہانیاں آج بھی اپنے کرداروں کے ساتھ کہیں شاہ بلوط کے تو کہیں پیپل کے تناور درختوں کے نیچے محوِ خواب ہیں۔۔۔۔۔۔ کالج میں داخل ہوتے وقت بائیں جانب سائیکل اسٹینڈ تھا… ترتیب سے کھڑی سائیکلیں…. متعلمین کی تعلیم و تربیت پر دلالت کرتی تھیں… پرنسپل آفس کے بائیں جانب ایک چھوٹی سی مسجد…. اللہ کی یاد میں آنے والوں کی راہ دیکھتی تھی۔۔۔۔۔۔۔.کالج میں داخل ہوتے وقت دائیں طرف ایک کنٹین تھی… یہاں چائے کی طلب اور خوشبو ہمارے اندر…. ہمیشہ کے لیے جذب ہو جاتی تھی اور ہمارے سب خواب اور اُنکی تعبیریں……سُنبل کے پھولوں اور ارجن کی چھال میں پیوست ہماری راہ دیکھتے تھے… گریجوایشن کے یہ دو سال…. ڈوبتے سورج کی آخری کرنوں کی طرح ڈوبتے چلے گئے.. انٹرمیڈیٹ اور گریجوایشن میں ہمارے قابلِ ذکر دوستوں میں محمد افضل صفی ، آصف خورشید خان ، ملک محمد ارشد، ساجد حُسین کھوکھر ، شیخ محمد فیروز، مہر مسعود اختر، مختار حُسین جعفری، عاشق حُسین میرانی ، غُلام مصطفیٰ کلو، محمد جاوید، نسیم اختر خان ، مُشتاق عالم تھند اور مشتاق احمد لنگاہ تھے…….اب ہمارے سامنے ایک طرف مشرقی سمت بل کھاتی پختہ سڑک تھی، شمالی جانب گورنمنٹ ٹیکنالوجی کالج لیہ کی پُرشکوہ عمارت…. جب کہ مغربی جانب…… نہر اور حد نظر سرسبز و شاداب درختوں کی قطاریں تھیں….جن کی اونچی شاخوں پر پرندوں کے خالی گھونسلے نئے پرندوں کی راہ تکتے تھے۔۔۔۔۔۔۔ڈاکٹر خیال امروہوی نے خوب کہا ہم نے تاریخ تو لکھ دی ہے کھرے لفظوں میںحاشیے بعد میں لکھیں گے پرکھنے والےسال ١٩٩٧ء میں گورنمنٹ پوسٹ گریجوایٹ کالج لیہ کے شُعبہِ اُردو میں ایم اے اُردو کی کلاسز کا آغاز ہوا تو ہم تیسری بار کالج کی پُرشکوہ عمارت کے سامنے دم بخود کھڑے تھے ہمیں یوں محسوس ہورہا تھا کہ جیسے..کالج کے در و دیوار، بل کھاتی پگڈنڈیاں، وہ پھولوں سے لدے پودوں اور تناور درختوں کی قطاریں ہماری راہ دیکھ رہے ہیں ….ہمارے ارد گرد پُرانے دوستوں کے بھولے بسرے چہرے نمودار ہو رہے تھے…. یوں سمجھیں جیسےہمیں جینے کا مقصد مل گیا ہو … یہ ہماری خوش نصیبی کہ اُس وقت اس شُعبہ اُردو کے قابل ترین اساتذہ کرام…. آپس میں محبت، احترام اور جہدِ مُسلسل کی لڑی میں پروے ہوئے تھے….. … شُعبہ اُردو کے اولین متعلمین میں چار طلباء اور آٹھ طالبات تھیں …. محمد افضل صفی ، مختیار حُسین بلوچ، شوکت علی گُجر اور راقم الحروف جمشید ساحل… شُعبہ اُردو کی کلاسز کا آغاز گورنمنٹ کالج لیہ کے جنوب مغرب میں واقع پرنسپل ہاوس میں ہوا تھا… بعدازاں دوسرے سال کی یہ کلاسز بوائز ہاسٹل کی عمارت میں منتقل ہو گئی تھیں.. کوئی دو ماہ یہ کلاسز گورنمنٹ کالج لیہ کے شمال میں ایستادہ نئی عمارت کے سیکنڈ فلور پر بھی جاری رہیں۔۔۔۔۔۔۔۔پروفیسر ڈاکٹر ظفر عالم ظفری "اسالیب نثرِ اُردو ” بہت عمدہ انداز سے پڑھاتے تھے… اُن کے پُرمغزلیکچر … ہمارے اندر ایک محویت طاری کر دیتے تھے … ، پروفیسر شہباز نقوی… ” اقبال کا خصوصی مطالعہ” پڑھانے میں کمال رکھتے تھے… یوں محسوس ہوتا تھا کہ جیسے سوئے ہوئے لفظ جاگ اُٹھے ہوں ،پروفیسر ڈاکٹر افتخار بیگ ” جدید شاعری (غزل، نظم) ” ہم جدید شاعری پڑھتے ہوئے چاہتے تھے کہ وقت اور مغرب کی طرف بڑھتا سورج ٹھہر جائے ، پروفیسر امیرمحمد ملک ” تاریخ زبان… ادبِ اُردو” ہمیں پڑھاتے وقت دُنیا کا نقشہ میز پر پھیلا دیتے اور ہمیں گولکنڈہ اور دیگر تہذیبوں کے درمیان لیے پھرتے… ہم خود کو اساطیری کرداروں کی طرح محسوس کرتے تھے ، پروفیسر مہر اختر وہاب ” تنقید. ” پڑھاتے وقت ماضی و حال کے دوراہے پر لا کھڑا کرتے تو ہمارے وجود کی خانقاہ میں برسوں کی تاریکی روشنی میں بدلنے لگتی تھی ، پروفیسر ڈاکٹر مزمل حسین ” افسانوی ادب ” خوب پڑھاتے تھے… اُن کے پڑھانے سے ہمیں یوں محسوس ہوتا تھا کہ ہم کسی ایسی داستان کے کردار ہیں ….جو داستان کے بعد… امر ہو جاتے ہیں، پروفیسر شفقت بُزدار "کلاسیکی شاعری "….. پڑھاتے تھے…. گویا ہمارے لیے علم و فن کے کئی در وا کر دیتے تھے…. علم و ادب کے آسمان پر جگمگاتے ان ستاروں کی روشنی سے ہم اپنے آنے والے کل کی راہیں متعین کرنے میں محو ہوتے چلے گئے ….نہ چاہتے ہوئے بھی لمحہ لمحہ کٹتا وقت…. صدیوں پر محیط ہوتا چلا گیا….. پروفیسر مہر اختر وہاب…. ہمیں "تنقید ” پڑھاتے تھے… ان کے پڑھانے کا انداز….. ہمارے اندر یکسوئی کو دوام دیتا تھا… ایک بار انتہائی دلچسپ صورتحال پیدا ہوئی…. جب پروفیسر مہر اختر وہاب نے اپنے پڑھائے گئے تنقیدی موضوعات پر ہمیں ٹیسٹ دینے کا کہا…. چالیس منٹ میں…. ہم نے بہت کچھ لکھ دیا…. دُنیا کی قدیم تہذیبوں سے لیکر یونان کے نامور فلسفیوں کا نقطہُ نظر بھی قلمبند کر دیا…. وہ دن ہمیں کبھی نہیں بھولے گا… جب پروفیسر مہر اختر وہاب… ہماری قابلیت پر دم بخود تھے… اُن کے چہرے پر پھیلی گہری سنجیدگی کو محمد افضل صفی نے بھانپ لیا… اور… اُن کے پاس کھڑے ہو کر ہماری لکھی تحریر کو بغور پڑھنے لگے….. جہاں ہم نے ” تنقید” کے موضوع پر ارسطو کے نظریات اُنکی کتاب "بوطیقا” کے حوالے سے قلمبند کیے تھے یا ابنِ خلدون کی کتاب "مقدمہ ابنِ خلدون” کی جلد نمبر بارہ سے اقتباسات قلمبند کیے تھے….. محمد افضل صفی بار بار کہنے لگے ….سر چیک کریں جمشید ساحل اسقدر صاحبِ مطالعہ طالبعلم ہے…. جس نے ارسطو کی ” بوطیقا ” بھی پڑھ رکھی ہے اور… اس کے ساتھ… پروفیسر مہر اختر وہاب اور کلاس میں موجود…. طلباء و طالبات کے قہقہوں سے….. ہماری برسوں کی تھکن اُتر گئی…. زندگی ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے…. ہر اُٹھتے قدم کے پیچھے…. ایک نئی کہانی اور ایک نیا کردار…. ہمیں آواز دیتا رہا…. اور ہم اس خیال سے پیچھے مُڑ کر دیکھتے رہے… کہ کوئی کہانی اپنے کرداروں کے ساتھ ہمارے سامنے آن کھڑی ہو گی …… کیوں کہ ہمارے اندر بھی ایک دل دھڑکتا ہے…. موہوم سی اُمیدیں سانس لیتی ہیں۔۔۔ ہم جانتے ہیں…. انسان کی زندگی نشیب و فراز سے عبارت ہے…. کچھ لوگ اپنے ماضی کی تلخ و شیریں یادوں کو… اپنے ذہن سے محو کر دیتے ہیں… کیوں کہ وہ آسمان کو چھونے کی آرزو رکھتے ہیں…. لیکن ہم ان سے ذرا مختلف سوچتے ہیں…کیوں کہ ہم نے بہار کے بعد خزاں کو بھی دیکھا ہے…۔ درخت کے سارے پتے جھڑنے کے باوجود درخت کی جڑیں…. درخت کو گرنے نہیں دیتیں…. یہاں تک کہ بہاریں لوٹ آتی ہیں۔نسیمِ لیہ نے خوب کہا
زمینِ شہر تری آبرو فقط ھم ہیں
ہمارے بعد تیرا کس نے نام لینا ہے