22جنوری :لیہ ٹی وی: وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ پاکستان کی معیشت کو مستحکم بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ڈھانچہ جاتی اصلاحات کے ذریعے اپنا گھر ٹھیک کیا جائے، بصورتِ دیگر قرضوں کے بوجھ سے چھٹکارا پانا ممکن نہیں۔
ڈیووس میں ایک مذاکرے سے بطور پینلسٹ خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ کرنٹ اکاؤنٹ اور فسکل اکاؤنٹ کا جڑواں خسارہ رہا ہے۔ فسکل خسارے کی بنیادی وجہ 9 سے 10 فیصد کی غیرپائیدار ٹیکس ٹو جی ڈی پی شرح ہے، جسے اصلاحات کے ذریعے 13 فیصد تک بڑھانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ ٹیکس ٹو جی ڈی پی شرح میں اضافہ کیے بغیر عالمی سطح پر عزت و وقار کا حصول ممکن نہیں۔ حکومت اپنے اخراجات میں کمی اور قرضوں کی ادائیگی کے بوجھ کو کم کرنے کے لیے اقدامات کر رہی ہے، جس کے نتیجے میں قرض ٹو جی ڈی پی شرح 78 فیصد سے کم ہو کر 67 فیصد پر آ گئی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ قرض لینا برا نہیں، لیکن قرض کا صحیح اور مؤثر استعمال ضروری ہے۔ قرضوں کو پیداواری صلاحیت بڑھانے اور برآمدات کے فروغ کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے، تاکہ معیشت کا انحصار درآمدات پر کم ہو اور پائیدار ترقی کا حصول ممکن ہو۔
وزیر خزانہ نے بتایا کہ مشرق وسطیٰ کے دو بینکوں سے ایک ارب ڈالر قرض پر 6 سے 7 فیصد شرح سود پر اتفاق ہو چکا ہے۔ مزید برآں، سی پیک کے فیز ٹو میں حکومت ٹو حکومت کے بجائے بزنس ٹو بزنس تعلقات کو فروغ دیا جائے گا۔ چینی کمپنیوں کو پاکستان میں پیداواری یونٹس منتقل کرنے پر قائل کیا جائے گا، تاکہ پاکستان برآمدات کا مرکز بن سکے۔
محمد اورنگزیب نے کہا کہ پاکستان پانڈا بانڈز کے ذریعے چینی کیپٹل مارکیٹ تک رسائی چاہتا ہے اور مصر کے تجربات سے سیکھتے ہوئے کریڈٹ ریٹنگ اور کیپٹل مارکیٹ میں رسائی کو بہتر بنانا چاہتا ہے۔
آئی ٹی اور نوجوانوں کے مواقع:
وفاقی وزیر نے آئی ٹی کے شعبے میں نوجوانوں کے لیے موجود بے پناہ مواقع پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی نوجوانوں کو دنیا بھر میں اچھی ملازمتیں ملنا ایک مثبت پہلو ہے، اور یہ شعبہ مستقبل میں معیشت کے استحکام میں اہم کردار ادا کرے گا۔
وزیر خزانہ نے عالمی بینک کے ساتھ 10 سالہ رفاقتی پروگرام کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس کے ذریعے بڑھتی آبادی، غربت، اور ماحولیاتی مسائل سے نمٹ کر پائیدار ترقی کی جانب بڑھا جا سکتا ہے۔