اسلام آباد (لیہ ٹی وی)سپریم کورٹ نے ایڈیشنل رجسٹرار توہین عدالت کیس میں اٹارنی جنرل کے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا۔ کیس کی سماعت جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس عقیل عباسی پر مشتمل بینچ نے کی۔
ایڈیشنل رجسٹرار سپریم کورٹ نذر عباس نے عدالت میں شوکاز نوٹس کا جواب جمع کروا کر اس کے واپس لینے کی درخواست کی۔ انہوں نے وضاحت کی کہ عدالتی حکم کی نافرمانی نہیں کی گئی بلکہ بینچز کی تشکیل کا معاملہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کو بھیج دیا تھا۔
سماعت کے دوران، عدالت نے سوال اٹھایا کہ جوڈیشل آرڈر کی موجودگی میں ججز کمیٹی کیس واپس لینے کا اختیار رکھتی ہے یا نہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اگر جوڈیشل آرڈر کو نظر انداز کیا جائے تو یہ معاملہ فل کورٹ میں جا سکتا ہے۔
معاون وکیل حامد خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ سپریم کورٹ کے اختیارات کو کم نہیں کر سکتی اور جوڈیشل آرڈرز صرف فل کورٹ کے ذریعے ہی تبدیل ہو سکتے ہیں۔
جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ بظاہر اس معاملے میں کچھ کنفیوژن موجود ہے اور سوالات آرٹیکل 191 اے کی تشریح سے جڑے ہوئے ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے زور دیا کہ دنیا میں کہیں بھی عدلیہ کے بجائے ایگزیکٹو بینچز تشکیل نہیں دیتا۔ عدالتی معاون احسن بھون نے کہا کہ آئین کی 26ویں ترمیم کے تحت پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کے اختیارات واضح ہیں، تاہم جوڈیشل آرڈرز کی خلاف ورزی کا سوال اہم ہے۔
معاملہ عدلیہ کی آزادی، آئینی ڈھانچے اور پارلیمنٹ کے دائرہ اختیار کے حوالے سے اہم قانونی نکات اٹھا رہا ہے۔ عدالت کی جانب سے محفوظ کیے گئے فیصلے میں ان سوالات پر روشنی ڈالی جائے گی۔