اسلام آباد (لیہ ٹی وی)سپریم کورٹ آف پاکستان میں بینچز کے اختیارات کے کیس کی سماعت کے دوران رجسٹرار سپریم کورٹ پیش ہوئے، جنہیں عدالتی حکم کے باوجود کیس مقرر نہ کرنے پر توہینِ عدالت کا سامنا تھا۔ جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی اور رجسٹرار سے سوال کیا کہ عدالتی حکم کے باوجود کیس کیوں نہیں مقرر کیا گیا؟ رجسٹرار نے وضاحت پیش کی کہ یہ کیس آٖئینی بینچ کا تھا، تاہم غلطی سے ریگولر بینچ میں لگ گیا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اگر یہ غلطی تھی تو یہ عرصے سے جاری تھی، اب اس کا ادراک کیسے ہوا؟ اور کیا اس بات کا علم تھا کہ اس میں کچھ غلطی ہو رہی تھی؟ اس پر رجسٹرار نے اعتراف کیا کہ اس معاملے پر کمیٹی کو نوٹ لکھا تھا، اور یہ کیس 27 جنوری کو مقرر کیا گیا تھا۔
عدالتی سماعت کے دوران، جسٹس منصور علی شاہ نے ججز کمیٹی سے یہ سوال بھی کیا کہ کیا عدالتی بینچ سے کیس واپس لے کر کمیٹی میں بھیجا جا سکتا ہے؟ اس پر رجسٹرار نے جواب دیا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت یہ کمیٹی کا اختیار ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے اس بات پر شدید تحفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ اگر کمیٹی عدالتی بینچ سے کیس واپس لے لیتی ہے تو یہ عدلیہ کی آزادی کے لیے خطرہ بن جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر یہ طریقہ کار برقرار رہا تو حکومت کے خلاف فیصلے آنے کی صورت میں کیسوں کو واپس لے لیا جائے گا۔
سماعت کے دوران جسٹس عقیل عباسی نے بھی اس بات پر تنقید کی کہ اگر کیس سننے میں کوئی پریشانی نہیں ہونی چاہیے تھی تو پھر کیس کیوں واپس لے لیا گیا؟ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ یہ کیس شاید آپ سے غلطی سے رہ گیا لیکن اگر یہ ہمارے سامنے آ گیا تو ہمیں یہ کیس سننے کا اختیار ہے۔
مجموعی طور پر یہ سماعت اس بات پر زور دیتی ہے کہ عدلیہ کی آزادی اور انصاف کے نظام میں غیر ضروری مداخلت سے بچا جانا چاہیے تاکہ عوام کا اعتماد عدلیہ پر قائم رہ سکے۔