تحریر: ڈاکٹر جیسومل
پاکستان کی جننگ انڈسٹری، جو کہ کپاس کی پروسیسنگ کے بنیادی مرحلے کے طور پر ملک کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی سمجھی جاتی ہے، موجودہ صورتحال میں ایک سنگین بحران سے گزر رہی ہے۔ جننگ انڈسٹری کا نہ صرف ملکی ٹیکسٹائل سیکٹر بلکہ دیگر کئی صنعتوں کے ساتھ گہرا تعلق ہے، جیسے کہ کھل، بنولہ، اور تیل کی صنعتیں۔ جننگ کے عمل میں حاصل ہونے والے یہ بائی پروڈکٹس مختلف صنعتوں کو خام مال فراہم کرتے ہیں، جن کی قیمتوں میں اضافے نے نہ صرف جننگ انڈسٹری کو بلکہ پورے کاٹن ویلیو چین کو متاثر کیا ہے۔ تاہم، سب سے زیادہ نقصان جننگ انڈسٹری پر عائد سیلز ٹیکس کی وجہ سے ہوا ہے، جو نہ صرف جنرز کی مالی حالت کو متاثر کرتا ہے بلکہ ملک کی معیشت پر بھی منفی اثرات مرتب کر رہا ہے۔ جننگ انڈسٹری کی مشکلات کا آغاز اُس وقت ہوا جب حکومت نے 18 فیصد سیلز ٹیکس کا نفاذ کیا، جو نہ صرف کپاس کی روئی بلکہ اس کے دیگر بائی پروڈکٹس جیسے کھل، بنولہ اور تیل پر بھی لاگو ہوا۔ اس ٹیکس کی وجہ سے جننگ سیکٹر کو شدید مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، کیونکہ ان بائی پروڈکٹس سے جنرز کی آمدنی کا بڑا حصہ آتا تھا، اور ٹیکس کے نفاذ نے ان کی قیمتوں میں اضافے کے باعث جنرز کی قوت خرید کم کر دی۔ جنرز کو نہ صرف کم قیمتوں پر کپاس خریدنی پڑی بلکہ دیگر بائی پروڈکٹس جیسے کھل اور بنولہ کی فروخت سے ہونے والی آمدنی بھی متاثر ہوئی، جس کی وجہ سے ان کا کاروبار مزید مشکل ہو گیا۔ جننگ انڈسٹری کی مالی حالت کی خرابی کا اثر پوری کاٹن ویلیو چین پر پڑا، جس میں سپننگ، ویونگ، اور دیگر صنعتیں شامل ہیں، اور اس نے ان کی بقاء کو خطرے میں ڈال دیا۔ جننگ انڈسٹری کی مشکلات کا براہ راست اثر کپاس کے کاشتکاروں پر پڑا۔ جنرز کو جب مناسب قیمت پر کپاس خریدنے کی صلاحیت نہیں رہی تو کاشتکاروں کو بھی مناسب معاوضہ نہیں مل سکا۔ اس کے نتیجے میں، کاشتکار متبادل فصلوں کی طرف منتقل ہونے لگے، جن میں چاول، گنا، مکئی اور تل شامل تھے، جس سے کپاس کی پیداوار میں کمی آ گئی۔ کپاس کی قیمتوں میں استحکام کی کمی اور جننگ انڈسٹری کی کمزور حالت نے کسانوں کو مالی طور پر کمزور کر دیا، اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان کو اربوں ڈالر کی روئی درآمد کرنی پڑی۔ اس کے ساتھ ساتھ، فصلاتی عدم توازن بھی پیدا ہوا جس کے باعث ملک میں پانی کی کمی اور خشک سالی جیسے مسائل مزید بڑھ گئے، کیونکہ کپاس کی جگہ زیادہ پانی استعمال کرنے والی فصلیں کاشت کی جانے لگیں۔ اگر یہ رجحان برقرار رہا تو نہ صرف پاکستان کی زرعی معیشت کو نقصان پہنچے گا بلکہ پانی کا بحران بھی مزید شدت اختیار کر سکتا ہے۔جننگ انڈسٹری نے اس بحران کے حل کے لیے مسلسل جدوجہد کی، جس میں پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ایشن (PCGA) کے چیئرمین ڈاکٹر جیسو مل اور سینئر ممبر سہیل محمود ہرل نے مرکزی کردار ادا کیا۔ جننگ انڈسٹری کی جانب سے حکومتی قائمہ کمیٹیوں، ایف بی آر کے نمائندوں اور فنانس ڈویژن کے اعلیٰ افسران سے ملاقاتیں کی گئیں، جن میں ان تمام حکام کو اس بات کی آگاہی دی گئی کہ سیلز ٹیکس کا نفاذ نہ صرف جننگ انڈسٹری بلکہ سپننگ، ویونگ، اور دیگر صنعتوں کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔ جنرز نے یہ واضح کیا کہ اگر سیلز ٹیکس کو ختم نہ کیا گیا تو کپاس کی پیداوار مزید کم ہو گی اور پاکستان کو مزید روئی درآمد کرنی پڑے گی، جو کہ ملک کی معیشت کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے۔جننگ انڈسٹری کی اس مسلسل جدوجہد نے آخرکار حکومت کو اس بات پر قائل کیا کہ سیلز ٹیکس کے منفی اثرات کا جائزہ لیا جائے۔ حکومت نے یہ تسلیم کیا کہ سیلز ٹیکس کا نفاذ مقامی صنعت کو تباہ کر رہا ہے اور اس کے خاتمے کی ضرورت ہے۔ جون 2025 کے مالی سال کے بجٹ میں حکومت اور ایس آئی ایف سی نے جننگ انڈسٹری پر عائد سیلز ٹیکس کو ختم کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے، جو کہ جننگ سیکٹر اور اس سے جڑے تمام صنعتوں کے لیے ایک بڑی کامیابی ہوگی۔ جننگ انڈسٹری کا اس بات پر زور رہا کہ اگر سیلز ٹیکس کو ختم کیا جائے تو یہ نہ صرف ان کی مشکلات کا حل ہوگا بلکہ پورے کاٹن ویلیو چین کو تقویت ملے گی اور کپاس کی پیداوار میں اضافے کی راہ ہموار ہو گی۔جننگ انڈسٹری پر سیلز ٹیکس کے خاتمے کا فائدہ صرف جنرز تک محدود نہیں رہے گا بلکہ اس کے اثرات پورے ملکی معیشت پر مرتب ہوں گے۔ جب جننگ سیکٹر کو استحکام ملے گا، تو سپننگ اور ویونگ انڈسٹریز بھی مضبوط ہوں گی، جس سے ملکی برآمدات میں اضافہ ہو گا اور پاکستان کو اربوں ڈالر کی روئی درآمد کرنے کی ضرورت کم ہو گی۔ اس کے علاوہ، کھل اور بنولہ جیسے بائی پروڈکٹس کی قیمتوں میں کمی سے مویشیوں کی خوراک بھی سستی ہو گی، جس سے دودھ اور گوشت کی قیمتیں کم ہوں گی اور صارفین کو فائدہ پہنچے گا۔سیلز ٹیکس کے خاتمے سے مقامی صنعتوں کو فروغ ملے گا اور پاکستان کی معیشت میں خودکفالت کی طرف ایک بڑا قدم اٹھایا جائے گا۔ حکومتی سطح پر اس پالیسی کی درست سمت میں تبدیلی اور جننگ انڈسٹری کے ساتھ ساتھ کاٹن ویلیو چین کو استحکام فراہم کرنا ملکی معیشت کے لیے نہایت اہم ہے۔ اس کے علاوہ، پانی کے بحران کی روک تھام اور زرعی پیداوار میں توازن پیدا کرنے کے لیے بھی یہ ضروری ہے کہ کپاس کی کاشت کو فروغ دیا جائے اور اس کے لیے مناسب حکومتی اقدامات کیے جائیں۔جننگ انڈسٹری پر سیلز ٹیکس کا خاتمہ پاکستان کی معیشت کے لیے ایک نیا آغاز ثابت ہو سکتا ہے۔ اس سے نہ صرف جننگ انڈسٹری کی حالت بہتر ہوگی بلکہ پورے کاٹن ویلیو چین میں استحکام آئے گا، جس سے ملکی معیشت کی مضبوطی اور خودکفالت میں اضافہ ہوگا۔ یہ سب اس وقت ممکن ہو گا جب حکومتی پالیسیوں میں تبدیلی لائی جائے اور جننگ انڈسٹری کی جدوجہد کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے مسائل کا حل نکالا جائے۔