باعث افتخار/ انجینئر افتخار چودھری
رمضان المبارک کی پرنور ساعتوں میں 10 رمضان کا دن ایک خاص روحانی اور تاریخی اہمیت رکھتا ہے۔ یہ دن ہمیں ایک ایسی ہستی کی یاد دلاتا ہے جس نے اپنی زندگی کی ہر نعمت، ہر آسائش اور ہر سہولت دین اسلام اور اس کے پیغامبر حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے لیے قربان کر دی۔ وہ ہستی کوئی اور نہیں، بلکہ ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ ہیں، جو نہ صرف نبی اکرم ﷺ کی سب سے پہلی زوجہ محترمہ تھیں، بلکہ اسلام قبول کرنے والی اولین شخصیت بھی تھیں۔ ان کا مقام و مرتبہ اتنا بلند ہے کہ خود اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے جنت میں موتی سے بنا ہوا محل تیار کر رکھا ہے۔
حضرت خدیجہؓ قریش کے قبیلہ بنو اسد سے تعلق رکھتی تھیں اور ان کے والد خویلد بن اسد بن عبدالعزیٰ مکہ کے نہایت معزز اور عزت دار شخص تھے۔ ان کی والدہ فاطمہ بنت زائدہ بھی ایک معزز خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔ حضرت خدیجہؓ اپنی سچائی، دیانتداری، کاروباری سوجھ بوجھ اور حسن اخلاق کے باعث طاہرہ (پاکیزہ) کے لقب سے مشہور تھیں۔
مکہ کی خواتین میں وہ سب سے زیادہ باوقار اور مالدار خاتون شمار کی جاتی تھیں، مگر ان کی دولت نے انہیں غرور میں مبتلا نہیں کیا۔ وہ محتاجوں، بیواؤں، یتیموں اور کمزوروں کی مدد کرتی تھیں اور ان کے لیے ایک پناہ گاہ تھیں۔ ان کی سخاوت اور اعلیٰ ظرفی ہی تھی کہ مکہ کے بڑے بڑے سردار ان سے نکاح کے خواہش مند تھے، مگر وہ ایک ایسے شخص کا انتخاب کرنا چاہتی تھیں جو دولت سے نہیں، بلکہ اخلاق اور کردار سے مالا مال ہو۔
حضرت خدیجہؓ نے جب نبی کریم ﷺ کی دیانت داری اور سچائی کے قصے سنے تو انہیں اپنا تجارتی سامان لے جانے کے لیے منتخب کیا۔ نبی اکرم ﷺ نے حضرت خدیجہؓ کا کاروبار ایمانداری سے کیا اور ان کے غلام میسرہ نے واپسی پر ان کے بلند اخلاق، سچائی اور معاملات کی صفائی کا ذکر کیا۔ یہ وہ لمحہ تھا جب حضرت خدیجہؓ نے اپنے دل میں یہ ارادہ کر لیا کہ وہ اپنی زندگی کا ساتھی اس ہستی کو بنائیں گی جو دنیا کے مال و زر سے نہیں بلکہ امانت، صداقت اور دیانت کے اعلیٰ ترین اوصاف سے آراستہ ہے۔
یہی وجہ تھی کہ انہوں نے خود نبی اکرم ﷺ کو نکاح کا پیغام بھیجا، جو نبی اکرم ﷺ نے اپنے چچا ابوطالب کے مشورے سے قبول کر لیا۔ یہ نکاح اس وقت ہوا جب حضرت خدیجہؓ کی عمر چالیس سال اور نبی کریم ﷺ کی عمر پچیس سال تھی۔
یہ رشتہ محض زوجین کا تعلق نہیں تھا، بلکہ ایک مقدس رفاقت تھی جس میں محبت، وفا، ایثار، قربانی، قربتِ الٰہی اور دین کی سربلندی سب کچھ شامل تھا۔
جب نبی اکرم ﷺ پر پہلی وحی نازل ہوئی اور وہ گھر آ کر گھبراہٹ کے عالم میں حضرت خدیجہؓ سے فرمانے لگے: "مجھے اپنی جان کا خوف ہے”۔
تو حضرت خدیجہؓ وہ پہلی شخصیت تھیں جنہوں نے نہ صرف انہیں تسلی دی بلکہ اپنے ایمان کو سب سے پہلے پیش کیا۔ ان کے تاریخی الفاظ آج بھی تاریخ کے سنہری صفحات پر ثبت ہیں:
"خدا کی قسم! اللہ آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا، آپ صلہ رحمی کرتے ہیں، سچ بولتے ہیں، بے سہارا لوگوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، مہمان نوازی کرتے ہیں اور حق کی راہ میں مشکلات برداشت کرتے ہیں۔”
یہی وہ پہلا لمحہ تھا جب نبی کریم ﷺ کو اس بات کا یقین ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں جو ذمہ داری دی ہے، وہ کسی شک و شبے سے بالاتر ہے۔ حضرت خدیجہؓ کے ان الفاظ نے نبی اکرم ﷺ کو مزید ہمت اور حوصلہ دیا۔
حضرت خدیجہؓ نے اپنی تمام دولت، جائیداد اور کاروبار اسلام کی راہ میں وقف کر دیا۔ جب نبی اکرم ﷺ نے کھل کر اسلام کی دعوت دینی شروع کی اور قریش نے مخالفت شروع کی، تو حضرت خدیجہؓ ہر مشکل میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ کھڑی رہیں۔
جب قریش نے مسلمانوں پر معاشرتی بائیکاٹ نافذ کیا اور انہیں شعب ابی طالب میں تین سال تک محصور رکھا گیا، اس وقت حضرت خدیجہؓ بھی نبی کریم ﷺ کے ساتھ تھیں۔ وہ ایک معزز اور رئیس خاتون ہونے کے باوجود ان سختیوں کو برداشت کرتی رہیں اور بغیر کسی شکوے کے ہر تکلیف کو قبول کیا۔
ان کی اس قربانی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ شدید بھوک، پیاس اور بیماری کا شکار ہو گئیں، لیکن کبھی اسلام کے راستے میں کسی کمزوری کا اظہار نہ کیا۔
یہی صعوبتیں بالآخر ان کی صحت پر اثر انداز ہوئیں اور 10 رمضان 10 نبوی کو وہ اپنے رب سے جا ملیں۔
نبی اکرم ﷺ کے لیے یہ ایک ناقابلِ بیان صدمہ تھا۔ اسی سال آپ کے چچا ابوطالب کا بھی انتقال ہوا، اسی لیے اس سال کو عام الحزن (یعنی غم کا سال) کہا جاتا ہے۔
نبی کریم ﷺ نے ہمیشہ حضرت خدیجہؓ کی محبت اور وفا کو یاد رکھا۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں:
"مجھے نبی کریم ﷺ کی کسی زوجہ سے اتنی غیرت محسوس نہیں ہوئی جتنی حضرت خدیجہؓ سے، حالانکہ میں نے انہیں نہیں دیکھا۔”
یہی نہیں، بلکہ جب حضرت خدیجہؓ کی سہیلیاں نبی کریم ﷺ کے پاس آتیں تو آپ ان سے محبت اور احترام سے پیش آتے، اور اکثر ان کے لیے تحائف بھیجتے۔
حضرت خدیجہؓ کی زندگی ہمارے لیے ایک سبق ہے کہ سچی محبت، وفا، ایثار اور قربانی کیا ہوتی ہے۔ وہ صرف ایک مثالی بیوی ہی نہیں، بلکہ اسلام کی پہلی داعیہ، سب سے پہلی مومنہ، اور قربانی کا پیکر تھیں۔
خواتین کے لیے حضرت خدیجہؓ کی زندگی میں ایک پیغام ہے کہ دین اور اخلاق کو دنیاوی مال و زر پر ترجیح دی جائے۔
آج جب ہم 10 رمضان کو یوم خدیجۃ الکبریٰؓ کے طور پر یاد کرتے ہیں، تو ہمیں اپنی زندگیوں میں ان کی سیرت کو اپنانے کا عزم کرنا چاہیے۔ اللہ ہمیں حضرت خدیجہؓ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور ہمیں ان کی سیرت سے سبق حاصل کرنے والا بنائے۔
آمین!